ریناٹا ٹیوریز سلوا سڈنی میں ایک بےروزگار طالب علم ہے۔
آسٹریلوی طلبا کے برعکس، جنہیں حکومتی امداد مل رہی ہے، ریناٹا برازیل سے تعلق رکھنے والی ایک بینالاقوامی اسٹوڈنٹ ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی مدد آپ کے تحت ہی گزارا کرنا پڑرہا ہے۔
"میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوں، جہاں بھی میں دیکھتی ہوں مجھے یہی لگتا ہے کہ میرے لئے اب جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔"
ستائیس سالہ طالب علم دو سال سے آسٹریلیا میں کیپلن بزنس اسکول سے ڈیجیٹل مینیجمنٹ میں تعلیم حاصل کررہی ہے جس کا ماسٹرز جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔
ایک طویل عرصے سے وہ سڈنی کے ایک ہوٹل میں کام کررہی تھی لیکن کووڈ۔ ۱۹ سے ہوٹل کو کافی نقصان پہنچا اور اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔
"اس سال مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے، میری نوکری چلی گئی ہے، میں گزارا کیسے کروں گی؟"

Renata perdeu o emprego durante a pandemia do coronavírus. Source: Catalina Florez/SBS News
ریناٹا کو اب تک نوکری نہیں ملی ہے اور وہ اپنے پارٹنر کی آمدنی پرگزارا کررہی ہے۔
اس مشکل وقت میں اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ کس طرح بیس لاکھ سے زیادہ افراد کو پریشانی کے باعث دھوکا دیا جاسکتا ہے۔
ملازمت کے غرض سے ایک کیفے میں اسے پانچ گھنٹے مفت کام کرنے کا کہا گیا۔
"مجھے کہا گیا کہ اگر آپ نے ٹیسٹ پاس کرلیا تو آپ کو سترہ ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے نوکری مل سکتی ہے۔ میں نے اسی وقت سوچ لیا کہ مجھے یہ جگہ چھوڑنی ہے۔"
آسٹریلیا میں کم سے کم اجرت انیس عشاریہ آٹھ چار ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ ریناٹا نے اس کاروبار کے بارے میں فئیر ورک محتسب کو آگاہ کردیا ہے۔
لیکن اجرت کا معاملہ اس مسئلے کا صرف ایک جُز ہے۔
نئے قومی سروے کے مطابق پانچ ہزارعارضی ویزہ ہولڈر، جن میں سے سڑسٹھ فیصد بینالاقوامی طلبا ہیں، کووڈ۔۱۹ کے نقصان کا ایک ہولناک منظر پیش کرتے ہیں۔
یونئین نیو ساوتھ ویلز کی جانب سے مارچ سے مئی کے مہینوں پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سروے کے پینسٹھ فیصد جواب دہندہ اپنی ملازمت کھوچکے ہیں جبکہ انتالیس فیصد اپنے بنیادی خرچے بھی پوری نہیں کرپارہے۔
چونتیس فیصد پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں یا کرایہ نہیں دے پارہے جبکہ تئیس فیصد کسی دوسرے کے ساتھ بیڈروم استعمال کررہے ہیں۔
تینتالیس فیصد کا کہنا ہے کہ وہ مجبور ہیں اور اپنا ایک وقت کا کھانا چھوڑ رہے ہیں۔
یونین نیو ساوتھ ویلز کے سیکریٹری مارک موری کا کہنا ہے کہ "آپ کویہاں بلانے کی ترغیب دی جاتی ہے، آپ نے ٹیکس دیا، لیکن اب آپ اپنے گھر جاسکتے ہیں ۔ کیا ہمیں آپ کو چھوڑ دینا چاہیئے؟ کیا یہی آسٹریلین اقدار ہیں؟"
"امداد دیئے بغیر ہم نہ صرف انہیں غربت کی طرف لے جارہے ہیں بلکہ ان کا استحصال بھی کررہے ہیں۔"
یوٹی ایس اور یونیورسٹی آف نیو ساوتھ ویلز کی جانب سے ایک اور سروے کے نتائج کے مطابق آنے والے مہیںوں میں عارضی ویزہ ہولڈرز کے لئے مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے یہ نظر آیا کہ حکومت نے جاب کیپر اور جاب سیکر پروگرام میں توسیع کردی۔
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی اسوسئیٹ پروفیسر لوری برگ کا کہنا ہے کہ "سروے کے آدھے سے زائد شرکا کا کہنا تھا کہ ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ وکٹوریہ کے دوسرے لاک ڈاون سے پہلے کی بات ہے۔"
"آنے والی چند مہینوں تک آسٹریلیا میں لاکھوں عارضی ویزہ ہولڈر موجود ہوں گے، جو کہ لاک ڈاون کے پہلے دن سے شدید مشکلات میں ہیں اورجنہیں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
"وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عارضی ویزہ ہولڈرز کے لئے کچھ کرے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی ملازمتیں کھودی ہیں جس میں وہ ٹیکس دیتے تھے اور آسٹریلیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔"
اگر حکومت عارضی ویزہ ہولڈر کو جاب کیپر اور جاب سیکر پروگرام میں شامل کرتی ہے تو اسے اگلے چھے مہینوں میں بیس ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا۔
عارضی وزیرِ امیگریشن الین ٹج نے ایس بی ایس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ" یہ ہمیشہ سے امید کی جاتی ہے کہ عارضی ویزہ ہولڈر آسٹریلیا میں رہتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت گزارہ کرسکتے ہیں۔"
"اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے عارضی ویزہ ہولڈرز کے لئے سُوپر کا استعمال کھول دیا ہے اور انہیں ویزہ میں بھی مدد فراہم کررہے ہیں۔"
"ہماری پہلی ذمہ داری آسٹریلوی شہری اور پرمننٹ ریزیڈینٹ ہونی چاہیئے۔"
ریناٹا کا کہنا ہے کہ وہ شکرگزار ہے کہ اس کے پارٹنر کی آمدنی موجود ہے جس سے وہ گزارہ کرپارہی ہے۔
"میں امید کرتی ہوں کہ مجھے آسٹریلیا نہ چھوڑنا پڑے۔ میرے پاس ابھی دو سال کا مزید ویزہ ہے تو میں چاہوں گی کہ اسے استعمال کروں۔"