فاطمہ احمدی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے سال 2021 میں طالبان کے قبضے سے قبل افغانستان کی قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔
وہ اس کلب میں اپنے دفاع کے اس قدیم انداز کو اپنانے کے لیے دوسروں کو بھی ترغیب دے رہی ہے۔ اس کے لیے نظم و ضبط اور توازن میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے بقول: "افغانستان جیسے ملک میں پروان چڑھنے کے بعد، تشدد اور صنفی عدم مساوات سب سے عام چیزیں تھیں۔ تائیکوانڈو نے مجھے اس طرح کے ماحول سے فرار کا موقع فراہم کیا اور مجھے اپنی توانائی کو کسی مثبت راستے پر منتقل کرنے کا چانس دیا۔"
"میں نے پانچ سال تک افغانستان کی نمائندگی کی۔ میں بین الاقوامی مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کی، اور افغانستان کا جھنڈا لہرانا اور دوسرے ملک جا کر اپنے ملک کی نمائندگی کرنا میرے حصے میں آیا۔"
لیکن یہ سب تین سال پہلے بدل گیا۔

Fatima Ahmadi (left) and Shekiba Fuladi are both from Afghanistan and train at the World Taekwondo Centre. Source: SBS
طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے کھیل پر پابندی کے بعد، فاطمہ ان سات تائیکوانڈو ایتھلیٹس میں شامل تھی جنہیں 2021 میں آسٹریلوی تائیکوانڈو، آسٹریلوی حکومت اور اوشیانا تائیکوانڈو کی قیادت میں ایک ہائی رسک ریسکیو مشن میں افغانستان سے نکالا گیا تھا۔
طالبان کے قبضے کے بعد روپوش ہونے کے بعد، خواتین آسٹریلیا جانے کے لیے کاغذی کارروائی کے ساتھ زمینی سرحد عبور کر کے پاکستان آئیں۔
اپنے آبائی وطن اور بہت سے پیاروں کو پیچھے چھوڑنے کے باوجود، فاطمہ کی مہم عروج پر ہے۔ آسٹریلیا میں، اس کے پاس ایک نئی زندگی ہے، اور ایک نیا موقع ہے، اپنے شوق کو جاری رکھنے کا۔
وہ ان دنوں زیادہ تجربہ حاصل کرنے اور آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے کے لیے مقابلوں میں حصہ لینے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔
"میں واقعی مقابلوں میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں اب اپنے ملک کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ اس لیے میں عالمی چیمپئن شپ یا بیرون ملک مقابلوں میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے کی منتظر ہوں۔"
شکیبہ فولادی بھی فاطمہ احمدی کی طرح اپنے شوق کی تکیمل کے لیے پرعزم ہے۔
اس21 سالہ نوجوان لڑکی کا تعلق بھی افغانستان سے ہے اور وہ اپنی تربیت کے بارے میں اتنی ہی پرجوش ہے۔
"اگر آپ کسی بھی کھیل کے بارے میں پرجوش ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ آپ کو یہ ضرور کرنا پڑے گا۔"
"میں جانتی ہوں کہ اگرچہ ہم آسٹریلیا میں رہتے ہیں وہاں رکاوٹیں بھی ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ وہاں کافی لوگ نہیں ہیں جو ہمیں اپنی پسند کے کھیل کھیلنے کے لیے ہماری رہنمائی کر سکیں۔لیکن اگر آپ کافی پرجوش ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ آپ کے لیے کافی اہم ہے، تو آپ کو کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے، مواقع لینے، اور جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں جانے کے لیے اگلا قدم اٹھانا چاہیے۔"

Ali Rahimi is the chief instructor at the World Taekwondo Centre. Source: SBS
ان کے بقول یہ لڑکیاں وہ مقام حاصل نہیں کر سکتی تھیں جو وہ چاہتی تھیں۔"اس لیے جب سے وہ آسٹریلیا آئی ہیں، یہ ان کے لیے ایک اچھا موقع ہے اور یہ ان سب کے لیے اپنا مقصد حاصل کرنے کا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔"
یہ دونوں لڑکیاں بہت سے لڑکیوں کے لیے مثال بن کر سامنے آرہی ہیں۔
افغانستان میں خواتین کو درپیش کھیلوں میں شرکت کے خلاف سخت گیر موقف کے پیش نظر یہ دونوں ایک ایسی مثال ہیں، جس کی قدر کی جا سکتی ہے۔