عثمان قادر نے پچھلے سال آسٹریلیا میں پرائم منسٹر الیون کی طرف سے کھیلتے ہوئے اٹھائیس رنز کے عوض تین وکٹیں حاصل کرکے ایک بار پھر سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ عثمان نے آسٹریلیا میں اس سے پہلے بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسٹریلین گریڈ کرکٹ کھیلی ہے ۔ وہ شیفیلڈ شیلڈ میں مغربی آسٹریلیا کی طرف سے کھیلتے رہے ہیں اور اس کے علاوہ بگِ بیش میں بھی پرتھ کی ٹیم کی طرف سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ سڈنی میں ہاکسبری کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے ہیں۔
Source: Getty Images
LISTEN TO
میں آسٹریلیا کیوں آیا؟
SBS Urdu
19/09/201911:26
عثمان قادر سنہ ۲۰۲۰ میں ہونے والے ٹی ۲۰ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی نمایندگی کرنے کے خواہش مند ہیں۔اگر وہ آسٹریلیا کی طرف سے کھیلنے کا اپنا خواب پورا کرلیتے ہیں تو وہ ایک اور پاکستانی کرکٹر فواد احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آسٹریلیا کی طرف سے کھیلنے کے لئے یہاں کی شہریت حاصل کر سکیں گے۔
مشکل وقت میں مشکل فیصلہ کیسے کیا؟
اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے عثمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مشکل حالات میں مشکل فیصلے کئے اور آسٹریلیا آنا بھی ایک ایسا ہی مشکل فیصلہ تھا۔انہوں نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ وہ اس وقت سخت مایوس ہوئے تھے جب دورہ ویسٹ انڈیز کے لئے پاکستانی ٹیم میں نام آنے کے باوجود ان کونہیں بھیجا گیا اور پی ایس ایل میں بھی کسی میچ میں کھیلنے کا موقعہ نہیں ملا۔ اور تب ہی انہوں نے یہ اہم فیصلہ کیا کہ انہیں آسٹریلیا جا کر اپنی قسمت آزمانا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو اپنے مقصد کو حاصل کر کے ہی رہتا ہوں۔
جب میں آسٹریلیا آیا تو یہاں سلیکٹرز نے مجھے موقع دیا اور میں لگاتار کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہوں اور اگر قسمت نے ساتھ دیا تو ایک دن آسٹریلیا کی قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گا
Source: Getty
پؔپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا
عثمان بتاتے ہیں کہ اُن کے والد عبدل قادر اپنے وقت کے بہیترین لیگ اسپنر ہی نہیں تھے بلکہ ایک شفیق باپ بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اکثر انہیں نیٹ پریکٹس کرواتے تھے۔ عثمان چھ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔عبدل قادر ان کی رہنمائی کرتے تھے ۔ وہ انہیں’یاکر‘ سیکھنے کو کہتے تھے اور کہتے کہ اگر اسپنر کو ’یاکر فلیپر‘ آجائے تو آجکل کی تیز رفتار کرکٹ میں بہت کام آسکتی ہے۔ پہلے میں اسے اہمیت نہیں دیتا تھا مگر پچھلے سال میں نے بڑی محنت سے اسے سیکھ کر کراچی میں رمضان کپ میں آزمایا اورمین آف دی میچ قرار پایا اور والد کی بتائی تکنیک نے مجھے ہر جگہ کامیابی دی۔ وہ کہتے ہیں کہ انکے والد عبدل قادر انہیں اُس ملک کی طرف سے کھیلتے دیکھنا چاہتے تھے جس کی طرف سے کھیل کر انہوں نے نام کمایا تھا۔ ویسٹ انڈیز کے دورے پر مجھے نہیں لے جایا گیا تو میرا دل ٹوٹ گیا۔ پپا نے کہا کہ میں اپنے خرچے پر تمہں بھیج دیتا ہوں مگر میں نے کہا مجھے نہیں جانا۔ اس کے بعد میں اتنا مایوس ہوا کی کافی عرصے تک میں نے کرکٹ نہیں کھیلی مگر وہ میری ہمت بڑھاتے رہےاور کہتے رہے کہ لڑنے والو ہارتے نہیں اور تم ضرور نام بناؤ گے۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے ہر طرح سپورٹ کیا۔ سلیکشین ہونے باجود ہر میچ میں مجھے بنچ پر بیٹھا دیکھ کر آخرِ کار انہوں نے مجھے آسٹریلیا جانے کی اجازت دے دی۔ آسٹریلیا آکر بھی میں ان سے ہر وقت رابطے میں رہتا تھا۔ ہر میچ سے پہلے فون پر ان سے بالنگ کے گُر اور اس دن کے میچ کی حکمتِ عملی پوچھتا تھا۔ عثمان نے گلوگیر آواز میں کہا:
اب پتہ نہیں کیا کروں گا کس سے مشورہ لوں گا، قدم قدم پر میری رہنمائی کرنے والا ہی نہیں رہا
Source: Supplied
Source: Instagram
یادگار میچز
آسٹریلیا مین وہ اپنے اُس میچ کو یاد کرتے ہیں جب ویسٹیرن آسٹریلیا کی طرف سے کھیلتے ہوئے انہوں نے پہلی بال پرمعروف آسٹریلین بلے باز کیمرون وائیٹ کو آؤٹ کیا تھا۔ پچھلے سال ہونے والے وکٹوریہ کے خلاف اس میچ میں ویسٹیرن آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی جس میں عثمان قادر نے اہم کردار ادا کیا اور پچاس رنز کے عوض تین وکٹیں حاصل کیں۔ ۲۰۱۸ میں آسٹریلین پراٗیم منسٹر الیون میں شمولیت اور اس میں اپنی کارکردگی کو وہ سنگِ میل قرار دیتے ہیں کیونکہ پراٗیم منسٹر الیون میں ایسے کھلاڑی لئے جاتے ہیں جو قومی ٹیم میں شمولیت کے لئے موزوں ہو سکتے ہیں۔ پچھلے موسمِ گرما میں انہوں نے سڈنی میں گریڈ کرکٹ میں اپنی کارکردگی سے آسٹریلین کرکٹ کوچ جسٹن لنگر اور سابق فاسٹ بالر جیف لاسن سمیت تمام ججز کو متاثر کیا۔آسٹریلین شہریت نہ ہونے کے باعث عثمان قادر فی الوقت آسٹریلیا کی قومی ٹیم میں شمولیت کے اہل نہیں لیکن وہ آسٹریلین سیلیکٹرز کی نظروں میں ہیں کیونکہ آسٹریلیا کی ٹیم کو اچھے اسپنر کی ضرورت ہے اور عثمان قادر آسٹریلین بالنگ کے افق پر ابھرتا ایک روشن ستارہ ہیں۔ عثمان قادر کوئینز لینڈ میں ایک میچ کے دوران پاکستانی نژاد آسٹریلین بلے عثمان خواجہ سے ملے اورعثمان کہتے ہیں کہ انہون نے عثمان خواجہ کو بے حد ملنسار پایا۔ عثمان خواجہ کے بعد کیا آسٹریلین قومی ٹیم میں ایک اور عثمان جگہ بنا پائے گا۔ اس کا انحصارشائید قسمت کے ساتھ ساتھ عثمان قادر کی آنے والے دنوں کی پرفارمنس پر ہوگا۔
Usman Qadir celebrates with PM XI's captain George Bailey. Source: Supplied