پاکستان میں پشتون اقلیت نے نہ صرف سات دہائیوں سے زیادہ جنگ اور تنازعہ کا سامنا کیا ہے، بلکہ پشتون اکثریت علاقوں میں فوجی آپریشن، لاپتہ افراد، خودکش دھماکوں، ھدف بندی اور مخصوص نشانہ بندی کی بنا پر قتل اور امریکی حکومت کی طرف سے ڈرون حملوں کا بھی سامنا کیا ہے۔
ہینریچ بول سٹیفٹنگ کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں طالبان کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے 70 فیصد افراد پشتون ہیں۔ 2001 سے افغانستان اور پاکستان میں تقریبا تین سے ساڑھے تین کروڑ پشتون امریکہ کی "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں متاثرین بن چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے، خیبر پختون خواہ اوربلوچستان میں دو خودکش بم دھماکوں میں 150 سے ذائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
"حال ہی میں پاکستانی فوج کو ۳۳ ملین ڈالر ہمیں مارنے اور جنگ کرنے کے لیے ملے ہیں۔"
اس نسل پرستی کے خلاف 2014 میں منظوراحمد پشتین نامی ایک نوجوان شخص نے پشتون اقلیت پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نامی ایک تحریک کا آغاز کیا اور اب انہیں سخت تنقید، مزاحمت اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پشتین کا کہنا ہے کہ ملک میں پشتون نسل پرستی جاری ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ پر حکومتی ذرائع اور پاکستانی فوج نے پشتین پر "دشمن" ریاستوں کے ایجنٹ ہونے، ملک کے خلاف جذبات کو فروغ دینے اور افغانستان سے فنڈز وصول کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کی پشتین نے ایس بی ایس اردو کو دیے گئےانٹرویو میں نہ صرف تردید کی بلکہ یہ کہتے ہوئے پاکستانی فوج پر الزام لگایا کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ فنڈز یہ لیتے ہیں اور الزام ہم پر لگاتے ہیں۔
"حال ہی میں پاکستانی فوج کو ۳۳ ملین ڈالر ہمیں مارنے اور جنگ کرنے کے لیے ملے ہیں۔"
پاکستانی انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پی ٹی ایم کو دشمن عناصر گمراہ کر کے ان کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہمارے پاس کافی ثبوت موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی ایم کے پیچھے غیر ملکی قوتیں ہیں۔
پشتین کے ایس بی ایس اردو کو دیے گئے انٹرویو کو سننے کے لئے، نیچے دیے گئے پلے کے بٹن پر کلک کریں۔
میجر جنرل آصف غفور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان نے ذاتی طور پر پی ٹی ایم کے سربراہ پشتین اور پارٹی کے سینئر کارکن محسن داوڑ سے ملاقات کی تھی اور ان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔
"ان تمام مسائل کو حل کیا گیا تھا. مجھے حیرت ہے کہ پھر کیا ہوا۔"
پی ٹی ایم اور افغان حکومت اور عوام کی جانب سے ان کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے، ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب ملک میں ایک مہم کوغیرریاستی اور مخالف ممالک کی حمایت شروع ہو جاتی ہے تو سب جانتے ہیں اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
پی ٹی ایم ۔ ایک غیرسیاسی پارٹی؟
انٹرویو کے دوران پشتین نے پی ٹی ایم کی غیر سیاسی ہونے کے موقف کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی کسی سیاسی مقصد کے لئے قائم نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پشتونوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے اور آواز اٹھانے کے لۓ ملک کی سیاست میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے.
"یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔"
آئی ایس پی آر ڈی جی کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر متعدد تنازعات موجود ہیں۔
آزادیِ اظہار رائے کو خطرہ؟

Manzoor Pashteen, leader of Pashtun Tahafuz Movement (PTM), speaks to supporters during a gathering in Lahore, Pakistan, 22 April 2018. Source: EPA
انٹرویو کے دوران پشتین نے حکومت اور فوج کی جانب سے ملک کی میڈیا پر کنٹرول کے حوالے سے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستانی میڈیا ایک متاثرہ اور ناکام میڈیا ہے جو صرف پروپیگنڈے کے لیے بیٹھی ہوئی ہے۔
"پاکستانی میڈیا نے ہمیں کبھی بھی کوریج نہیں دی اور ہمیں ہمیشہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنا پڑا تاکہ ہمارے پیغام کو عوام تک پہنچایا جا سکے۔"
تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج کے خلاف جعلی کہانیوں اور جعلی خبروں کو پروپیگنڈا پیدا کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔
ریاست کے اندر ریاست
پشتین کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج نے قانون کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے اور یہ کہ حکام بہت سے طریقوں سے لوگوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ "یہ آئینی اور غیر آئینی اقدامات اور اعمال کے درمیان ایک جنگ ہے۔ جب آپ آئین کو مسترد کرتے ہیں تو آپ ریاست کے اندر ریاست قائم کرتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ جو لوگ پی ٹی ایم کی حمایت کرتے ہیں، ان کو اس بات کا احساس ہے اور باقی لوگوں کے ذہنوں پر ریاست اور فوج نے مہریں لگا دیں ہیں۔ "اگر ہمارے مطالبات پورے ہوجائیں تو ہم خاموشی سے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں گے۔ پشتون لوگ بھی آخر اس ملک کے برابر شہری ہیں اور اپنے حقوق اور تحفظ مانگنے کا حق رکھتے ہیں۔
کیا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عظیم تبدیلی ہو رہی ہے؟
اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شبیر حسین کا ماننا ہے کہ پی ٹی ایم کو سخت موقف لینے کی بجائے اپنی حکمت عملی میں اپنی ضروریات پر زور دینا چاہیے۔
ایس بی ایس اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی ایم پشتونوں کی ایک آواز بن کر ابھری ہے اور یہ ان لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں جو طالبان اور بعض صورتوں میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں سالوں اذیت کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم صرف ان ناانصافیوں کا ایک ردعمل ہے۔ اس نے دنیا کو قبائلی پشتونوں کا ایک نیا چہرہ دکھایا ہے جو تعلیم یافتہ ہیں، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔
ڈاکٹر حسین کا خیال ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بہت بڑی تبدیلی ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر حسین کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم کی ریاستی، فوجی، میڈیا اور [بعض] عوامی تنقید کی تین اہم وجوہات ہیں: سب سے پہلی یہ کہ وہ فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہ انہیں مُفاخرانہ نسلی تقابل پسند (ایتھنو سینٹرک) پشتونوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور آخر میں یہ کہ یہ قبائلی عوام دہشت گردی کے خلاف ملکی اور فوجی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہے
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو پہلے پاکستان کے قیام کے بعد 1948 میں بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے گمراہ کیا گیا تھا، اور پھر دوسری نسل کو افغان جہاد میں استعمال کیا گیا تھا۔ تیسری نسل اب اتنی آسانی سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ "پی ٹی ایم کو قومی سلامتی کے لیے خطرے کی طور پر لیبل کیا گیا ہے اور میڈیا میں بھی اس بات پر مکمل خاموشی ہے۔
ڈاکٹر حسین کا ماننا ہے کہ پی ٹی ایم دو ایک بار اپنے موقف سے کچھ ہٹ گئی تھی۔ "اپنے فوری مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، انہوں نے نظام پسند اور پالیسی پر مبنی مسائل کی نشاندہی کرنا شروع کر دی اور آرمی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستانی آرمی تنقید برداشت نہیں کرتی چاہے وہ غلطی پر ہی کیوں نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی ریاستی، فوجی، میڈیا اور [بعض] عوامی تنقید کی تین اہم وجوہات ہیں: سب سے پہلی یہ کہ وہ فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہ انہیں مُفاخرانہ نسلی تقابل (ایتھنو سینٹرک) پشتونوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور آخر میں یہ کہ یہ قبائلی عوام دہشت گردی کے خلاف ملکی اور فوجی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہے۔