26 جنوری کو آسٹریلیا بھر میں نکلنے والی ریلیز میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیوں؟

اگرچہ فلسطینیوں کے ساتھ مقامی افراد کی یکجہتی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس سال جاری غزہ تنازعہ نے اضافی طور پر فوری اتحادی شکل اختیار کر لی ہے۔

Palestine support at rallies WEB HEADER.jpg

Rallies in cities across the continent will have Palestinian speakers, and are making demands of the Australian government relating to the conflict with Israel.

ہر سال کی طرح اس بار بھی 26 جنوری کے تناظر میں براعظم بھر میں مختلف کمیونٹیزکسی ایک دن مختلف سرگرمییوں میں مصروف ہیں۔

1938 کے بعد سے ہر سال، مقامی اور ٹورس اسٹریٹ جزیرے کے لوگ اس تاریخ کو نا انصافی اور جبر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔
یہ مطالبات 2024 میں ایک بار مرکزی حیثیت رکھیں گے، لیکن اس سال جبر کا شکار مختلف کمیونیٹیز سے یکجہتی کا اظہار بھی ہو رہا ہے: کئی ریاستی دارالحکومتوں میں مظاہروں اور ریلیز کے منتظمین فلسطینی علاقوں میں جاری تباہی کو اجاگر کیا ہے، کیونکہ غزا پر اسرائیلی بمباری کو شروع ہوئے چار مہینے ہو رہے ہیں۔

موجودہ جنگ، 2006ء میں ہونے والے انتخابات سے لے کر حالیہ انتخابات کے بعد تک غزہ پٹی پر حکومت کر نے والے حماس اور فلیسطینی مقبوضہ علاقوں کے منتظم ملک اسرائیل کے درمیان

حماس کا بیان کردہ مقصد فلسطینی ریاست قائم کرنا اور غزا اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ روکنا ہے ، اسرائیلی قبضے بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔

مقامی اور فلسطینی برادریوں کے مابین حمایت کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس تنازعہ کو بین الاقوامی سرخیاں بنانے کے ساتھ، اس سال اس کا وزن میں اضافہ ہوا ہے۔

پالاوا کے انڈیجینئیس اور کارکن مائیکل مانسیل نے یکجہتی کے مظاہروں کو “فطری” قرار دیا۔ انہوں نے NITV کو بتایا کہ آسٹریلیا میں مقامی انڈیجینئیس کی جدوجہد اور غزا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے درمیان مطابقت کا پورا احساس ہے۔ دونوں جگہ طاقت کے زور پر مقامی افراد کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اوردنیا کے دیگر قبضے میں رہنے والی اقوام کی طرح فلسطینی اور انڈیجینئیس بھی اپنی مشترکہ جدوجہد کے دوران یکجہتی پاتے ہیں۔”

ہمارے لئے یہ کہنا بے وقوفی ہوگا کہ شمالی امریکہ میں ریڈ انڈینز کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ہم سےکوئی لینا دینا نہیں ہے، یا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے طرز عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جب ہم خود ایسی ہی قبضے اور جبر کا شکار ہوئے ہیں تو جو لوگ اسی طرح نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں جیسے ہم نے نسل کشی کا سامنا کیا ہے، تو ان کے لئے ہماری ہمدردی اور حمایت ایک فطری بات ہے ”

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل کشی کے دعووں پر فی الحال ہیگ میں بین الاقوامی عدالت آف جسٹس کے سامنے بحث کی جارہی ہے اور اسرائیل نے اس الزام کو سخت طور پر مسترد کیا ہے۔

اسپیکر اسرائیل اور آسٹریلیا کے مابین متوازی کرنے کا ارادہ

7 اکتوبر کو عسکریت پسند گروہ حماس کے ذریعہ 1000 سے زائد اسرائیلی شہریوں کے قتل عام کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب سے بدلہ لینے میں 25،000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر خواتین اور بچے، اور غزہ کا بنیادی ڈھانچہ ختم ہوا ہے۔

تاہم، یہ تنازعہ ان تنازعات کے وسیع تناؤ میں ہے جو مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے موجود ہے، جب لیگ آف نیشنز کے ایک فرمان میں فلسطین کی پچاس فیصد زمین پر نئی یہودی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوا تھا۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دہائیوں سے امن کی ناکام کوششیں جارہی ہیں، تاہم دونوں کے مابین ایسا کوئی معاہدہ کامیابی کے ساتھ برقرار نہیں رہ پایا ہے۔

1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل نے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور آج تک غزہ کی پٹی پر ناکہ بندی برقرار رکھی ہے۔

مانسیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی تنازعہ کی تاریخ کے باعث یہاں فرسٹ نیشنز کے لوگوں میں ان سے فطری ہمدردی پائی جاتی ہے۔

“ہمارے ملک میں ہماری زندگیوں پر قابو پانے کے لئے مقامی لوگوں کی جدوجہد فلسطینیوں کی جیسی ہی جدوجہد ہے، جو اپنی زمینوں پر اپنی زندگیوں پر اختیار حاصل کرنے کے لیے جاری ہے۔
Aboriginal spokesman Michael Mansell at Cape Barren Island
پلوا کے شخص مائیکل مانسیل کا کہنا ہے کہ 26 جنوری کی ریلیوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی صورتحال کو تسلیم کرنے کے لئے موجودہ ہے۔ Source: AAP
ڈاکٹر عادل یوسف تسمانیہ یونیورسٹی کے ایک فلسطینی استاد ہیں۔

وہ یہاں فلسطینیوں اور مقامی لوگوں کی صورتحال کے بارے میں جناب مانسیل کے موازنے سے اتفاق کرتے ہیں، وہ 26 جنوری کی لوٹرویتا تسمانیا کی ایک ریلی میں اسپیکر کی حیثیت سے انڈیجینئیس اور فلسطینی افراد کی ایک جیسی صورتحال کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے این آئی ٹی وی کو بتایا، “ہم جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ آسٹریلیا کی نوآبادیات اور فلسطین کی نوآبادیات کے درمیان ایک جیسی صورتحال کو دکھانا ہے۔”

“ایک معلم کی حیثیت سے، میں قید، قتل کی شرح، زمین کو ضائع کرنے، گھروں کی تباہ کاری، نوآبادیات کے ذریعہ کمیونٹیز کی بدنامی، بدسلوکی اور غیر انسانی سلوک کے اعداد و شمار کو دکھارہا ہوں۔”

یوسف کا کہنا ہے کہ دونوں استحصالی طبقات کو مزید تاریخی مثالوں سے بھی ظاہر کیا گیا ہے: آسٹریلیا میں بدنام مقامی پروٹیکشن بورڈز نے فرسٹ نیشنز کے لوگوں کو ان کی نقل و حرکت کو پرمٹ سے مشروط کیا ، یہ افراد بلا اجازت کے ذریعہ کہیں نہیں آ جا سکتے ہیں۔

یوسف نے کہا، “اسرائیلی بھی فلسطینی علاقوں میں مقامی افراد کے ساتھ بالکل ایسا ہی کر تے ہیں۔
لہذا انہوں نے پرمٹ کے ذریعے اجازت کا نظام بنایا ہے اور آپ کو ہر چیز کے لئے اجازت کی ضرورت ہے: فلسطینیوں کو کسی مقدس جگہ پر جانا ہو یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو اپنی ہی زمین پر بغیر پرمٹ کے ممکن نہیں ہے۔”

یہودی اتحادیوں کے بارے میں خدشات

فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے منصوبے تنازعہ کے بغیر نہیں رہے ہیں۔

کچھ لوگوں نے 26 جنوری کی ریلیوں کو فلسطینی علاقوں میں تبدیلی کے مطالبات کے ساتھ جوڑنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے، اور اس دعوے پر اعترض کیا ہے کہ آبائی لوگ اپنے عوام کے ساتھ مشترکہ مقصد محسوس کرتے ہیں۔

سابق لیبر سینیٹر اور اولمپین نووا پیرس نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ منصوبہ بند اقدامات کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے این آئی ٹی وی کو بتایا، “مجھے اپنے لوگوں کو درپیش چیلنجوں کو فلسطینی برادری کے مسائل کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کے بارے میں سنگین خدشات ہیں۔”

“26 جنوری کے ساتھ مل کر فلسطینی مقصد کو اٹھانا تاریخی اور اخلاقی طور پر نامناسب ہے۔ یہ آسٹریلیائن یہودی باشندوں کو شیطان بنا کر پیش کرسکتا اور ان آسٹریلین یہودیوں سے ہمارے تعلق کو خطرے میں ڈالتا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے انڈیجینئیس افراد کی حمایت کی ہے۔
محترمہ پیرس نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے اور آسٹریلیا کی نوآبادیاتی تاریخ کے درمیان کسی بھی مماثلت کو کو غلط قرار دیا۔

“آسٹریلیا میں فلسطین کے حامی لابی کے ذریعہ استعمال ہونے والی پوری داستان جھوٹ ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اسرائیل میں یہودی 'آباد کار نوآبادیات' ہیں جنہوں نے غیر قانونی طور پر فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے - مکمل طور پر غلط ہے۔

“یہ اسرائیل/فلسطین میں یہودیوں کی تاریخ ہے جس میں آسٹریلیا میں میرے لوگوں کی تاریخ کے ساتھ زیادہ درست متوازات ہیں۔
“یہودی فلسطین کی سرزمین کے دیسی قدیمی باشندیں ہیں۔”

اگرچہ اس علاقے میں یہودیوں کی موجودگی ہزاروں سال پہلے کی ہے، لیکن اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور آباد کاری کو اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔
ترمہ پیرس نے یہودی-مقامی یکجہتی کی جدید مثالوں کی بھی نشاندہی کی، جیسے آسٹریلیائی یہودیوں کی ایگزیکٹو کونسل کی وائیس کے لئے حمایت، اور وکیل رون کاسٹین کا ہائی کورٹ میں مابو کیس کا لڑنا شامل ہیں۔۔

'بین الاقوامی یکجہتی بہت اہم ہے'

FREE PALESTINE RALLY MELBOURNE
Independent senator Lidia Thorpe speaking at a Free Palestine event in November last year. Source: AAP / JOEL CARRETT/AAPIMAGE
تاہم محترمہ پیرس جیسے تبصرے، جن کا اظہار کہیں اور خاص طور پر پروفیسر مارسیا لینگٹن نے کیا ہے، دوسرے گروپس نے اسرائیلی حکومت کے اقدامات کو آسٹریلیا سمیت ہر جگہ یہودی لوگوں کے رویوں سے الجھانے کے طور پر مسترد کیا ہے۔ ارائیلی حکومت اور یہودی دو الگ الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

منسویل نے کہا کہ آسٹریلیا کا دائیں بازو.یا رائیٹ ونگ.. اسرائیلی طرز عمل کی کسی بھی مذمت کو مخالف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں بہت فعال ہے۔”

“مگر ایسے لوگ مکمل طور پر تنہا ہیں۔ یہودی عوام ہمیشہ مقامی انڈیجینئیس لوگوں کی ہمدردی رکھیں گے۔

آزاد سینیٹر لیڈیا تھورپ، جنہوں نے گذشتہ سال نومبر میں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں میں شرکت کی تھی، نے مقامی یکجہتی کی تاریخی مثالوں کی نشاندہی کی۔ ’وورنگ گننی گنڈیٹجمارا‘ کی خاتون نے این آئی ٹی وی کو بتایا، “یہودی لوگوں کا جو تعلق تھا، خاص طور پر ولیم کوپر کے ساتھ اور جو حمایت ہم نے 1938 میں ظاہر کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی یکجہتی بہت اہم ہے۔”
اسی سال، یورٹا یورٹا کے شخص ولیم کوپر نے نازیوں کے ہاتھ سے یہودی یورپیوں کی مصیبت کے خلاف احتجاج کیا، میلبورن میں جرمن قونصل خانے کی طرف مارچ کیا اور ان بے انصافیوں کے خلاف درخواست پیش کی۔

“بہت سارے اسرائیلی لوگ ہیں جو اس ملک میں مقامی لوگوں کی حمایت کرتے رہتے ہیں، اور فلسطینی عوام کی بھی حمایت کرتے ہیں، اور فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

زیادہ تر ریلیوں کی مرکزی توجہ حکومت کو آسٹریلیا ڈے کی تقریبات کی تاریخ کو تبدیل کرنے کے مطالبات پر رہے گی۔

سڈنی کے مارچ کے منتظمین میں سے ایک بلیک کاکس کا کہنا ہے کہ وہ ریفرنڈم کے بعد 'افہام و تفہیم' کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، بچوں کو خاندانون سے الگ کرنے کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور دیگر وجوہات کے علاوہ حراست میں اموات پر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
فلسطینی یکجہتی بھی اس احتجاج میں شامل ہوگی، جیسا کہ دوسرے شہروں میں ہوگا۔
“ہم حقیقت سے آنکھیں چرا کر یہ نہیں کہہ سکتے ہیں، 26 جنوری کی تاریخ تبدیل کرنے کو اسرائیلیوں کے ہاتھ سے 20،000 فلسطینیوں کی موت پر ترجیح حاصل ہے۔”

شئیر
تاریخِ اشاعت 26/01/2024 12:26pm بجے
شائیع ہوا 26/01/2024 پہلے 12:37pm
تخلیق کار Dan Butler
ذریعہ: SBS