جب پرتھ کی رہائشی سارہ ایک فیس بک گروپ کی ممبر بنیں تو انہیں اپنی ہی جیسی صورتحال سے دوچار افراد کے لا تعداد پیغامات ملے جو مایوسی اور کوفت کا شکار تھے۔ ان کو تسلی دینے والوں میں ہزاروں اجنبیوں کی پوسٹ اور پیغامات شامل تھے ۔
سارہ، جو اپنا اصل نام نہیں بتانا چاہتییں انہوں نے ایس بی ایس نیوز کو بتایا کہ "آپ کو ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ ملیں گے جوسخت کوفت اور پریشانی کا شکار ہیں۔"

Sarah and her parents. Source: Supplied
"وہ ایک دوسرے سے پیرنٹ ویزہ درخواست کی پروسیسنگ کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں، کس کو ویزہ ملا کس کو نہیں، کون کب سے انتظار کر رہاے، کس نے کب درخواست دی، غرضکیہ اس معاملے پر مکمل افراتفری ہے۔"
ان کمیونٹی پیجز پر پوسٹ کرنے والے ایک آسان چیز کے طلبگار ہیں: وہ اپنے والدین کو آسٹریلیا لانا چاہتے ہیں۔
والدین کے لئے مخصوص سالانہ ویزوں کی تعداد تقریباً 8,500 ہے جس کے لئے
130,000 سے زیادہ درخواستیں موجود ہیں۔، بہت سے لوگ بغیر کسی حل کےکئی سالوں تک انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری ویزہ فیسیں بھی دیتے چلے آرہے ہیں۔
40 سالہ سارہ ایک دہائی قبل ایک آسٹریلن سے شادی کرنے کے بعد برطانیہ سے آسٹریلیا آگئیں تھیں۔2019 میں، انہوں نے برطانیہ میں مقیم اپنے ضعیف والدین کو آسٹریلیا آنے کی کوشش کرنے پر آمادہ کیا، اور 47,955$ کی فیس والے معاون والدین کے ویزا کے لیے درخواست دی۔
ان کا خیال تھا کہ دو سال کا پروسیسنگ کا وقت ہوگا مگر انتظار کا وقت بڑھتے بڑھتے آٹھ سال ہو گیا، پھر انہوں نے نان کنٹریبیوٹنگ ویزہ (non-contributing visa) آپشن آزمایا، جس میں والدین بریجنگ ویزے پر عارضی طور پر آسٹریلیا میں رہتے ہوئے پیرنٹ ویزے کی درخواست کا انتظار کر سکتے ہیں
وہ کہتی ہیں کہ بریجنگ ویزے پر رہنے والے گھر نہیں خرید سکتے اور ان کے والدین کو ملک چھوڑنے کے لیے اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، اگر وہ برطانیہ سے باہر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں تو انہیں اپنی برطانوی شہریت سے محروم ہونے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے وہ ممکنہ طور پر بغیر کسی شہریت والے ہو سکتے ہیں۔
لیکن نان کنٹریبیوٹنگ ویزے (non-contributing visa) پر موجود افراد کے پیرنٹ ویزے کی پروسسنگ کا وقت40 سال تک ہے۔
سارہ نے اعتراف کیا کہ "ان کے والدین یہ ویزہ اپنی زندگی میں کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
سارہ کہتی ہیں کہ کہ حکومت کواس عمل کے بارے میں "شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
" اس کے طریقہ کار کے بارے میں نیک نییتی سے درخواست گزار کو اعتماد میں لینا اہم ہے ، سچ بتادیں کہ کیا ہو رہا ہے تاکہ لوگ اپنی زندگیوں کو آگے بڑھا سکیں اورمستقبل کے فیصلے کر سکیں۔
"اس غیر یقینی صورتحال کی ذمےداری آسٹریلین حکام کی پراسرار خاموشی، رابطے کا فقدان اور درست صورتحال سے آگاہی نہ دینے اور پروسیسنگ کو خفیہ رکھنےکی پالیسی پر ہے۔ اور یہ طریقہ کار کسی کے لئے موزوں نہیں ہے۔
پیرنٹ ویزے کو ختم کرنے کا مطابہ کیوں کیا جارہا ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کے اگر والدین کے مستقل ویزے کا پروگرام ناقابلِ عمل ہو چکا ہے تو بہتر ہے اسے مکمل طور پر ختم ہی کر دیا جائے اس سال کے شروع میں، سابق پبلک سروس باس مارٹن پارکنسن کی سربراہی میں ایک بڑے
مائیگریشن ریویو نے والدین کے لئے مستقل رہائشی ویزا نظام ختم کرکے مختصر مدت کے ویزوں کی تعداد بڑھانے کی تجویزدی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ممکنہ طور پر متنازعہ ہونے کے باوجود، short-term visas کا حل فی الحال خاندانوں کے ملاپ کا ایک بہترحل ہے جو کم خرچ، منصفانہ، تیز اور زیادہ یقینی ہے۔
آذاد مصنف اور محقق پیٹر ماریس کہتے ہیں کہ شائید حکومت کسی دوسرے حل پر غورکر رہی ہو جن میں والدین کو " خاندان" کا حصہ قرار دینے کا اصول ختم کرنا یا آسٹریلیا میں مائیگریشن کی تعداد میں اضافہ جیسی تجاویز ہو سکتی ہیں۔۔
ماریس کی مرتب کردہ رپورٹ اسکینلون فاؤنڈیشن نے کمیشن کی ہے، جس میں انہوں نے ایک موجودہ پیرنٹ ویزا سسٹم کو"غیر فعال" قرار دیا ہے جو ہزاروں خاندانوں کے لیے کوفت اور پریشانی کے ساتھ سرکاری عملے کے لیے ایک بہت بڑا انتظامی بوجھ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ موجودہ حقائق کو تسلیم کریں کہ والدین کا مستقل ویزا پروگرام مکمل طور پر غیر فعال ہے، اسے مکمل طور پر ختم کر دیں اور کسی اور طریقہ کار جیسے کہ توسیع شدہ عارضی قیام کے ویزہ سسٹم کے ذریعے والدین کو آسٹریلیا لانے کی خاندانوں کی خواہش کو پورا کریں۔
ایس بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے، ماریس نے کہا کہ پیرنٹ ویزہ کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ والدین کے مستقل ویزوں کے لیے والدین کو ایک خاندان کے طور پر تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تارکین وطن کے کوٹے کی تعداد میں 20,000 کا اضافہ کیا جائے۔
"اگرحکومت ایسا نہیں کرنے جا رہی تو موجودہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ کیپنگ اور قطار لگانے اور مسلسل بڑھتی ہوئی انتظار کی فہرست رکھنے کا موجودہ عمل ہر ایک کے لیے اذیت ناک ہے
"حکومت کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ واضح کردے کہ وہ والدین کو مستقل طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور لوگوں کو جھوٹی امیدیں دلانے کے بجائے ایک بہتر عارضی ویزا پروگرام ترتیب دے۔'
آسٹریلین مائیگریشن نظام کے ایک جائزے میں آسٹریلیا کے والدین کی ہجرت کے نظام کو بڑے پیمانے پر اس مقصد کے لیے نا موزوں قرار دیتے ہوئے والدین کے ویزوں کے لیے "ایک نیا اور بہتر طریقہ" تجویز کیا گیا تھا۔
‘ظالمانہ اور ناقابلِ عمل’
جائیزے میں کہا گیا ہے کہ 30-50 سال کے انتظار کی مدت نے بہت سے والدین کی ممکنہ عمر کے پیش نظر، کامیاب ہجرت کے امکانات کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔
"لوگوں سے ایسے مستقل ویزے کی درخواست لینا جو شاید کبھی نہیں دیا جائے گا ، ظالمانہ اور غیر ضروری ہے۔"
سارہ اور ان کے خاندان کےلئے ایسی ہی غیر یقینی صورتحال تکلیف دہ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس انتظار نے میرے والد کو بہت زیادہ تناؤ میں رکھا ہے۔
"انہوں نے کئی راتیں بے خوابی میں گزاری ہیں اور اب میں سوچتی ہوں کہ کیا واقعی ا ن کے لئے ہماری ان تمام کوششوں کا کوئی فائیدہ بھی تھا۔