'لبرل رہنما پیٹر ڈٹن کا ماضی میں لبنانی مسلمانوں کے بارے میں دئے گئے 'نسل پرستانہ' تبصروں کا دفاع

حزب اختلاف کے رہنما پیٹر ڈٹن نے 2016 میں لبنانی مسلمانوں کے آسٹریلیا ہجرت کے بارے میں کیے گئے اپنے "نسل پرستانہ" تبصروں کو درست قرار دیا ہے، اور اصرار کیا ہے کہ اس گروپ کے بنیاد پرست افراد کو کمیونیٹی میں ذیادہ نمائندگی ملتی رہی ہے۔

A man in a blue suit white shirt and floral tie

Opposition leader Peter Dutton has justified comments he made in 2016 about Lebanese Muslims. Source: AAP / Mick Tsikas

حزب اختلاف کے رہنما پیٹر ڈٹن نے 2016 میں لبنانی مسلمانوں کے آسٹریلیا ہجرت کے بارے میں کیے گئے "نسل پرستانہ" تبصروں کو درست قرار دیا ہے، اور اصرار کیا ہے کہ ان میں "بنیاد پرست" افراد کی " نمائندگی زیادہ" تھی۔
اے بی سی ٹی وی کی کچن کیبنٹ میں کئے گئے ریمارکس کے بارے میں پوچھے جانے پر، ڈٹن نے کہا کہ انہوں نے یہ بیان "آسٹریلیا میں دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنانے" کے تناظر میں اسوقت دیا تھا جب وہ امیگریشن کے وزیر تھے۔
"ہاں، ٹھیک ہے، ایک بار پھر، اس وقت یہ ایک A380 (ہوائی جہاز) کو گرانے کے لیے A380 پر حملے کی کوشش کے تناظر میں تھا۔ ہمارے ملک میں بہت سے دہشت گرد حملے ہوئے جنہیں ناکام بنا دیا گیا - مسٹر ڈٹن نے کہا آپ اس سے پہلو تہی کر سکتے ہیں مگر اور یہ کہہ کر یہ کوئی مسئلہ نہیں ہےحقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
اسلامک اسٹیٹ سے روابط رکھنے والے سڈنی کے دو افراد کو 2017 میں سڈنی سے ایک بین الاقوامی پرواز کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے پر 2019 میں جیل بھیج دیا گیا تھا، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا مسٹر ڈٹن انہی حملوں کی منصوبہ سازوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے یا نہیں۔ اس کی وضاحت کے لئے ایس بی ایس نیوز نے ان کے دفتر سے رابطہ کیا ہے۔
میزبان اینابیل کرب نے کہا کہ اس واقعے سے قطع نظر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک "نسل پرستانہ تبصرہ تھا۔
".ڈٹن نے کہا کہ وہ "تبصرے تھے جو مجھے نہیں کرنے چاہیے تھے"۔
"میں نے اس کے لیے معافی مانگ لی ہے۔ لیکن ایک بار پھر، جب مشتبہ دہشت گردی کے معاملات سامنے آرہے ہوں اورخطرہ منڈلا رہا ہو، اورہم ان لوگوں کے بارے میں تحقیق کر رہے ہوں جو بنیاد پرستی کا شکار ہو چکے ہوں اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا پس منظر مشترک ہو تو یہ تجزیہ ایک حقیقت پسندانہ حقیقت کہلائے گا۔
پروگرام پر ڈٹن کے تبصروں کے جواب میں، آسٹریلیا کی سیٹلمنٹ کونسل نے کہا: "ہمارے ملک میں تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہے، آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں تو تعصبانہ بیانات ناقابلِ قبول ہیں۔
کونسل، جو پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو آسٹریلیا میں آباد ہونے میں مدد فراہم کرنے والی خدمات کے لیے اعلیٰ ادارہ ہے، نے کہا: "سیاستدانوں کو خاص طور پر اقلیتی عقیدے اور ثقافتی برادریوں کے بارے میں کیے جانے والے تبصروں کے اثرات پر نظر رکھتی ہے۔
"سیاست دانوں اور رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک جامع معاشرے کو پروان چڑھائیں، اور تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے تبصرے کمیونٹیز کو گہرا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔"
تنظیم نے کہا کہ تارکین وطن ہمارے ملک کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی تانے بانے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔

پیٹر ڈٹن نے 2016 میں کیا کہا؟

نومبر 2016 میں، ڈٹن نے کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم میلکم فریزر نے 1970 کی دہائی میں لبنانی مسلمانوں کو آسٹریلیا ہجرت کرنے کی اجازت دے کرغلطی کی تھی۔
ڈٹن نے کہا کہ ان تارکین وطن کی اولادیں ان لوگوں کی ہی نمائندگی کرتی ہیں جنہوں نے حال ہی میں غیر ملکی جنگجوؤں کے طور پر بیرون ملک سفر کیا تھا۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا کہ اس ملک میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزام میں جن آخری 33 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں سے 22 افراد دوسری اور تیسری نسل کے لبنانی مسلم پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں"۔
ایک ہفتہ قبل انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے ہجرت کے پروگرام کے حوالے سے "غلطی ہوئی ہے"۔

دہشت گردی کے الزام میں آخری بار جن 33 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں سے 22 افراد کا تعلق لبنانی مسلمانوں کی دوسری یا تیسری نسل سے ہے۔
پیٹر ڈٹن
انہوں نے اس وقت اسکائی نیوز کو بتایا۔ کہ"حقیقت یہ ہے کہ میلکم فریزر نے 1970 کی دہائی میں کچھ لوگوں کو لانے میں غلطیاں کی تھیں اور آج ہم اسکا نتیجہ دیکھ رہے ہیں،"

"آج آسٹریلیا میں آباد ہونے والے لوگوں کی پالیسی سازوں کو ماضی کے تارکین وطن کے پروگراموں سے سبق سیکھنا چاہیے۔"

لیبر اور گرینز کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا میں مسلم گروپوں اور افراد کی طرف سے ان کے تبصروں کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔

ڈٹن نے کچن کیبنٹ پر اور کیا کہا؟

ڈٹن نے کہا کہ گر ایک طرف وہ سابق وزیر اعظم کیون رڈ کی اسٹولن جنریشن پر معافی کا بائیکاٹ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں تو وہ دوسری طرف 2018 میں جنوبی سوڈانی آبادی کو جرائم سے جوڑنے والے تبصروں پر بھی قائم ہیں۔
جولائی 2018 میں میلبورن میں لا چول کے چھرا گھونپ کر قتل کئے جانے کے بعد، ڈٹن نے خاتون کی موت کے لیے "وکٹوریہ کے گینگ کے مسائیل" کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا کہ میلبورن کے باشندے جنوبی سوڈانی لوگوں کے تشدد کی وجہ سے ریستورانوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔
انہوں نے دی ایج کو بتایا، "وکٹوریہ میں امن و امان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور جب تک وکٹورین حکومت کی طرف سے قانون کی حکمرانی نافذ نہیں کی جاتی، زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔" "ہمیں NSW یا Queensland میں سوڈانی گروہوں کے ساتھ یہ مسائل نہیں ہیں۔"
لیکن پیر کے پروگرام میں، ڈٹن نے کہا کہ واقعات کا تعلق ایک خاص کمیونٹی سے تھا۔
انہوں نے کہا، "میں نے یہ تبصرہ میلبورن میں دوستوں سے بات کرنے کے بعد کیا تھا کیونکہ ایسے واقعات ہوئے تھے جہاں لوگوں کی کاریں چوری ہوئیں یا لوگ ریستورانوں میں جا رہے تھے اور کچھ گروہ خوف پھیلا رہے تھے۔"
"اس وقت وکٹوریہ میں ہونے والے واقعات کا تعلق بچوں سے تھا، خاص طور پر ایک خاص کمیونٹی سے۔"
"یہ نفرت کی وجہ سے دیا گیا بیان نہیں تھا بلکہ لوگوں کو جرائم کے ہاتھوں تکلیف اٹھاتے ہوئے دیکھنے کے باعث دیا گیا بیان تھا۔
"تو کیا اسے زیادہ حساسیت سے کہا جا سکتا تھا؟ ہاں، بالکل۔ اور کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور جو ایسا نہ کرے اسے احمق ہی کہا جا سکتا ہے۔
ڈٹن نے ایلس اسپرنگس میں فرسٹ نیشنز کے لوگوں کو بھی "منفی"ر بیان کیا۔
ڈٹن نے کہا، "اگر آپ ایسٹ ارنہم لینڈ جاتے ہیں، تو اسکول میں بچوں کی حاضری کی شرح 90 فیصد ہوتی ہے جو ہم دارالحکومت میں دیکھتے ہیں۔"

آپ ہوائی جہاز پر چڑھتے ہیں اور پھر ایلس اسپرنگس اور ٹاؤن کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ صحت کا نظام کام نہیں کر رہا ہے۔ امن و امان کا نظام کام نہیں کر رہا ہے۔ اور مکمل خرابی ہے جو تکلیف دے ہے۔

شئیر
تاریخِ اشاعت 27/08/2023 12:25pm بجے
تخلیق کار Madeleine Wedesweiler
ذریعہ: SBS