آسٹریلیا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لیئے گئے قرض پر سود کی شرح متعین کرنے سے متلعق نئی بحث کے بعد خدشہ ہے کہ بہت سے طالب علموں پر اس کا اضافے بوجھ پڑ سکتا ہے۔
آسٹریلیا بھر میں قریب 29 لاکھ پچاس ہزار افراد نے اعلیٰ تعلیم کے لیئے مختلف طرز کے پروگرامز کے ذریعے قرضے لیے ہوئے ہیں۔
آسٹریلین ٹیکسیشن آفس کے مطابق مجموعی طور پر قریب 78 ارب ڈالر کے قرضے ان اسٹوڈنٹس کے پاس واجب الادا ہیں۔
مجموعی طور پر ہر اسٹوڈنٹ نے اوسط سطح پر 26 ہزار پانچ سو ڈالرز کا قرض لے رکھا ہے، مگر اب ماہ مارچ کی مہنگائی کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر جو اعداد و شمار ترتیب دیے جائیں گے اس کے بعد یہ شرح بلند ہوسکتی ہے۔
موڈیز انیلیٹکس سے وابستہ ماہر معاشیات ہیری مرفھی نے گارڈیئن نیوز کو بتایا ہے کہ مہنگائی کی شرح لگ بھگ تین اعشاریہ تین پانچ کے حساب سے بلند ہوسکتی ہے۔
اگر یہ اندازہ درست ثابت ہوا تو طالب علموں پر واجب الادا قرضے میں اوسط بنیادوں پر 900 ڈالرز کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران مہنگائی کی شرح سات اعشاریہ ایک فیصد تھی اور یوں طالب علموں کے ذمے واجب الادا قرضے میں 1700 ڈالرز کا اضافہ ہوا تھا۔
Source: SBS
اسی طرح مقروض افراد کی تعداد بھی 18 لاکھ پچاس ہزار سے بڑھ کر 29 لاکھ پچاس ہزار تک جاپہنچی۔
آبادی میں اضافے اور طالب علموں کے لیے قرضوں کے حصول کے قوانین میں تبدیلیاں اس ضمن میں خاصی اہم ہیں۔
سال 2012 سے 2017 تک فنڈنگ کا نظام دراصل ضرورت یا مانگ کے مطابق رہا اور حکومت کی جانب سے ملنے والے قرضوں کی کوئی حد متعین نہیں تھی۔
اس کے بعد سال 2021 میں اس وقت کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کی حکومت میں بعض ڈیگریز کے لیے قرضوں پر فیس شرح کم کر دی گئی تاہم بعض مہارتوں سے متعلق قرضوں پر فیس کم کی گئی تھی۔
Source: SBS
ان قرضوں کی مالیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی واپس ادائیگی کے وقت میں بھی اضافہ ہوا جو سابقہ سات سال کی اوسط سے بڑھ کر اب 10 سال تک جاپہنچا ہے۔
بیرون ملک مقیم افراد کے ذمے اسٹوڈنٹ قرضہ ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ طلباء کے مقابلے میں طالبات کے ذمے قرضے کی شرح واضح طور پر زیادہ ہے۔
گزشتہ برس ایک ایسا واقعہ بھی دیکھنے میں آیا جب ایک شخص نے مجموعی طور پر سات لاکھ 37 ہزار ڈالرز کا قرض لیا جو آسٹریلیا کی تاریخ میں اس نوعیت کے قرضے کی بلند ترین شرح تھی۔
Source: SBS
یاد رہے کہ آسٹریلیا میں طالب علموں کو دیے جانے والے قرضے کے نظام HELP کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی خزانے میں گزشہ برس طالب علموں کو دیے گئے قرضے میں سے 4 اعشاریہ 9 ارب ڈالر کی وصولی ہوئی۔
اس کے برعکس پیٹرولیم ریسورس رینٹ ٹیکس سے دو اعشاریہ دو ارب ڈالر کی وصولی ہوئی۔
رواں ماہ جنوری میں آسٹرلیا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر رچرڈ ڈینس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک کے اندر رائج "تیسری دنیا" کے نظام ٹیکس کو تبدیل کیا جائے۔ انہوں نے طالب علموں کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ناکہ گیس کی صنعت کو۔
آسٹریلوی پارلیمان میں آزاد ارکان کے گروپ "ٹیلز" نے بھی HELP میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے وزیر تعلیم جیسن کلیئر سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی قرضوں کو کنزیومر پرائس انفلیشن یا پھر تنخواہ میں اضافے کی شرح سے منسلک کیا جائے۔
گزشتہ ماہ کے آسٹریلین یونیورسیٹیز اکارڈ میں بھی یہی تجویز دی گئی ہے۔
وزیر تعلیم نے ان تجاویز پر غور کی یقین دہانی کروائی ہے۔