کیا AI کی مدد سے پاکستان میں کرپشن کو ختم کیا جاسکے گا ؟

AI

Source: Pixabay / Pixabay/geralt CC0

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

کیا آسٹریلوی تعلیمی اداروں میں مصروف پاکستانی طالب علم ایسا کچھ نیا سیکھ پائیں گے جس سے ایماندارانہ نظام حکومت اور معاشرے میں شفافیت پیدا ہوسکے؟


پاکستانی معاشرے اور بالخصوص اقتدار کے ایوانوں میں کرپشن یا بدعنوانی کی پھیلی ہوئی جڑیں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔

میلبورن کی موناش یونیورسٹی میں پبلک پالیسی کا مطالعہ کرنے والے گوبند کمار صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں ۔

ایس بی ایس اردو کے ساتھ گفتگو میں گوبند کمار نے کہا کہ انہیں یہاں بیش بہا تجربہ، معلومات اور مشاہدہ مل رہا ہے جو نہ صرف ان کی نجی صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے بلکہ فیئر گورننس کو یقینی بنانے کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔ ان کے بقول: "آپ جتنا اٹومیشن یا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جائیں گے اتنا ہی چیزیں بہتر ہوں گی اور گورننسس بھی بہتر ہوگی کیونکہ پوری دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی طرف جا رہی ہے اور میں یہاں پر یہی سب سیکھ رہا ہوں اور کوشش کروں گا پاکستان جاکر بھی اسے فروغ دوں۔"

گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی سطھ پر پاکستان کا نام کرپشن اور ناانصافی سے جوڑا جارہا ہے اور ملک کے اندر بھی اس کے اثرات، بالخصوص غریب اور متوسط طبقات میں، واضح طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

انسداد بدعنوانی کے معتبر ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ درجہ بندی میں ایک مرتبہ پھر نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں حکومت، عدلیہ، پولیس، فوج، صحت اور حتی تعلیم کے شعبوں میں کرپشن کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔

اس ضمن میں مالی غبن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کمزور اخلاق کی کئی مثالیں میڈیا میں سامنے آچکی ہیں۔
Gobind Kumar.jpeg
Gobind Kumar from Sindh, Pakistan is an Australian Award scholar studying public policy at Monash University, Melbourne 13/11/20232. Credit: Gobind Kumar

گوبند کمار کو ملیبورن آکر درست حکومتداری سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا موقع آسٹریلیا ایوارڈ نے فراہم کیا ہے۔

ڈپارٹمنٹ آف فارن افئیرز یا وزارت خارجہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی یہ خاصی پرکشش اسکالر شپ ہر سال قریب 20 پاکستانی طالب علموں کو مختلف شعبوں میں مفت تعلیم، تجربہ اور مشاہدہ فراہم کرتی ہے۔

جانچ پڑتال کے ایک منظم اور شفاف عمل کے بعد ہر برس کامیاب آسٹریلین ایوارڈز کے اسکالرز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد انہیں تمام اخراجات فراہم کرکے کچھ نیا اور بہتر سیکھنے اور پھر اپنے آبائی وطن جاکر لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کی امید کی جاتی ہے۔

گوبند کمار دس ماہ قبل اس سلسلے سے جڑ کر یہاں آئے ہیں۔

وہ پاکستانی روزنامہ ڈان اور دیگر نیوز اور سماجی اداروں کے ساتھ بھی وابستہ رہے ہیں اور معاشرے میں بہتری کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا میں گورننس اور سروس ڈیلوری کے معیار سے میں یہی سیکھ رہا ہوں کہ بیرونی ممالک کے اتنے زیادہ شہریوں کی یہاں موجودگی کے باوجود یہاں رول آف لا کا معیار رکھا گیا ہے جو دوسرے ممالک کے بھی مثال ہیں اور ان سے سیکھا جاسکتا ہے اور ایک سال کے اندر میرا یہی مشاہدہ ہے کہ لوگوں کا جو اتنا زیادہ اعتماد ہے حکومت پر اس کی یہی وجہ ہے۔
گوبند کمار
ان کے بقول پاکستان کے مقابلے میں آسٹریلیا میں شفافیت کی کئی وجوہات کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے جو بالکل واضح طور پر معاشرے میں دیکھی جاسکتی ہیں اور اس کے لیے ہر روز ہنگامی بنیادوں پر بہت بڑے اور سخت اقدامات کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ایک منظم اور مسلسل شفاف نظام اور اصولوں کے تحت سب چلتا ہے۔

اسلام ٓآباد سے تعلق رکھنے والے واصل آزاد ان دنوں میلبورن میں IEIS نامی ادارے میں طالب علم مشاور کی حیثیت سے مشورہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امیگریشن قوانین میں بعض تازہ اور کڑے اقدامات کے باوجود آسٹریلیا تعلیم و تربیت کے حوالے سے بالخصوص پاکستانی طلباء کے لیے خاصی مناسب اور پرکشش جگہ ہے۔

ایس بی ایس اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ یہاں آکر نہ صرف آپ کو بہتر سیکھنے کو ملتا ہے بلکہ نجی اور پروفیشنل زندگی میں بھی ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
آپ کسی بھی ملک میں جائیں تو وہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ آپ دو برس تک کام کرسکتے ہیں لیکن یہاں بعض مضامین جیسا کہ تعمیرات، انڈسٹریل اٹومیشن،آئی ٹی، سافٹ ویئر اور انجینئرنگ میں آپ پانچ برس تک رہ سکتے ہیں، کام کرسکتے ہیں اور مستقل ویزہ کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں۔آپ کوشش کریں کہ اپنی اسٹڈی مکمل کریں تو آپ کے پاس بےشمار امکانات ہیں کامیابی کے لیے، ترقی کے لیے اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی مدد کے لیے ۔
واصل آزاد
حالیہ دنوں امیگریشن کے نظام میں تبدیلیوں اور ترامیم کے بعد آسٹریلیا زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو راغب کرنے کے لیے بین الاقوامی تعلیمی شعبے میں اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے کے لیے مزید آگے بڑھ رہا ہے۔

وزیر برائے تعلیم، جیسن کلیئر نے گزشتہ ماہ ایڈیلیڈ میں منعقدہ آسٹریلین انٹرنیشنل ایجوکیشن کانفرنس (AIEC) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی تعلیم صرف یہاں آنے والے اسٹوڈنٹس کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ آسٹریلیا کے کلچر، شفافیت اور معیارات کو دنیا تک لے جانے کے لیے بھی اہم ہے۔

ایمرجنگ فیوچر 4 کے ایک تازہ سروے کے مطابق دو سالوں میں پہلی بار آسٹریلیا بھی ہزاروں اسٹوڈنٹس کی پہلی پسند کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سروے میں 10,000 سے زیادہ بین الاقوامی طالب علموں کے خیالات کو یکجا کیا گیا ہے، جن میں سے تقریباً نصف ہندوستان یا چین میں مقیم ہیں اور باقی زیادہ تر فلپائن، پاکستان، نیپال، نائجیریا، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا اور ویتنام میں ہیں۔
__________

کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا
کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔

ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے

پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے:


شئیر