ایس بی ایس اردو نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی جائزہ لیا ہے جس میں اس پورے عمل سے منسلک افراد سے گفتگو کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث پاکستانی آم بڑی مقدار میں آسٹریلیا نہیں آتا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجییٹیبل امپورٹر اینڈ ایکسپورٹرمرچنٹ ایسوسیئشن کے پیٹرن انچیف وحید احمد نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ آسٹریلیا میں پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ آسٹریلوی عوام میں پاکستانی آم کی مانگ زیادہ نہیں ہے۔ اسی لئے آسٹریلیا میں آم کی بڑی مقدار میں پاکستان سے درامد نہیں ہوتی۔
" دو ہزار انیس میں ہماری [ دنیا بھر میں آموں کی ] برامد ایک لاکھ تیس ہزار ٹن ہوئی تھی جبکہ دو ہزار بیس میں ایک لاکھ پچیس ہزار ٹن ہوچکی ہے اور امید ہے کہ سیزن کے آخر تک ڈیڑھ لاکھ ٹن ہوجائے گی۔
"آسٹریلیا میں ہماری برامد صرف اکسٹھ ٹن ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فریٹ کا خرچہ ہے جو اس سال تین گنا زیادہ ہے۔
"کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ائیرلاینز کو بہت نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پروازیں مہنگی کردی ہیں۔وحید احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گرم پانی کا استعمال کرنے والی صرف دو سہولتیں ہیں۔
Pakistani workers relax after preparing mangoes for export. Source: AAP Image/EPA/SHAHID AZIZ
جب تک گرم پانی کے پراسیسنگ پلانٹ میں اضافہ نہیں ہوگا، آسٹریلیا میں پاکستانی آموں کی برامد نہیں بڑھ سکتی۔
دوسری جانب آسٹریلیا میں مقامی اپورٹروقاص پٹانی نے کئی مشکلات کے باوجود آسٹریلیا میں پاکستانی آموں کو درامد کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف پروازوں اور پراسیسنگ کے مسائل درپیش ہوئے بلکہ آسٹریلیا میں آموں کو قرنطینہ کے عمل سے بھی گزرنا پڑا۔
"جن آموں کو ہم نے پاکستان سے بڑی مشکل سے درامد کیا انہیں آسٹریلوی حکام نے تین دن تک قرنطینہ میں رکھا۔اس کے باوجود ہم نے آسٹریلیا میں پاکستانیوں کو بڑے سستے داموں میں آم فروخت کیا۔"
سڈنی میں کونسل جنرل آف پاکستان محمد اشرف کا ایس بی ایس اردو سے گفتگو میں کہنا ہے کہ پاکستانی آموں کو اس سال کرونا وائرس وبا کی وجہ سے تین اقسام کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
"سب سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ بینالاقوامی پروازوں پر سخت پابندی تھی۔ آسٹریلیا نے بھی اپنی فلائٹس کو بہت محدود رکھا ہے۔ جو کمرشل فلائٹس تھیں وہ تقریباً بند ہی ہوگئی تھیں جبکہ ریپیٹرئیشن پروازیں ایک یا دو چلیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے کوئی جہاز نہیں تھے جو پاکستانی آم آسٹریلیا لاسکیں۔
پاکستانی آم سمندر کے ذریعے آسٹریلیا نہیں آسکتا، صرف فضائی سفر کے ذریعے ہی یہاں آسکتا ہے۔
Farmers collect mangoes from a local garden in Multan a central part of Pakistan's southern Punjab Source: AAP Image/EPA/STR
"پاکستان کے صرف دو ایسے ادارے ہیں جو آسٹریلیا میں آموں کی برامد کرسکتے ہیں۔ لاک ڈاون کی وجہ سے دونوں پراسیسنگ سہولتیں بند تھے۔
"تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ جو درامدکنندگان آسٹریلیا میں پاکستانی آم منگواتے تھے، سیزن میں تبدیلی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس کی بڑی وجہ فلائٹ آپریشن میں مشکلات تھیں اور انھیں خدشہ تھا کہ نقصان ہوسکتا ہے۔"
محمد اشرف کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی وجہ سے جون کا مہینہ زائع ہوگیا۔
"ان مسائل کے باوجود ہم نے ریپٹریئشن پروازوں کے ذریعے آموں کو منگوانے کا آغاز کردیا۔"
محمد اشرف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک پراسیسنگ پلانٹ جس میں حکومت کی شراکت داری ہے اسے آسٹریلیا کے لئے پاکستانی آموں کی پراسیسنگ کی گزارش کی، جس کے بعد آموں کی پراسیسنگ شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ چھوٹے امپورٹر کو اس عمل میں شامل کیا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال سے آموں کو بہتر انداز میں آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا۔