گذشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان سے آسٹریلیا آ کر بسنے والوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہے ۔آسٹریلوی امیگریشن کا نظام بھی ایسے افراد کو آسٹریلیا آ کر بسنے کے مواقع فراہم کرتا ہے جو اہم شعبوں جیسا کہ طب ، سائنس یا نفسیات سے وابستہ ہوں ۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے آسٹریلیا آ کر بسنے والی خواتین کی بڑی تعداد کچھ خانگی ، ثقافتی یا سماجی مسائل کے باعث ، آسٹریلیا آ کر اپنے کئیریر کو جاری نہیں رکھ پاتیں ۔
- حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کم عمر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ اس کے باوجود یہ خواتین روزگار کے حصول میں ناکام ہیں۔
- پاکستانی خواتین درحقیقت ایک بوجھ نہیں بلکہ درپیش حالات کا شکار ہیں ۔
- موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لئے پروگرامز تشکیل دئیے جائیں ۔
اس سلسلے میں تحقیقی مقالہ لکھ رہی فائزہ یاسمین کہتی ہیں کہ پاکستانی خواتین کو اکثر ایک بوجھ یا ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ صورت حال بہت مختلف ہے۔ پاکستانی خواتین ایک طرح سے حالات کا شکار ہیں۔
فائزہ یاسمین کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین کو آسٹریلین لیبر مارکیٹ میں شامل ہونے سے قبل جس رکاوٹ کا سامنا ہے وہ ان کی گھریلو ذمہ داریاں اور بچوں کی پرورش ہے ۔ فائزہ کے مطابق اب تک کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان سے آسٹریلیا آنے والی خواتین کی بڑی تعداداعلیٰ تعلیم یافتہ جوان آبادی پر مشتمل ہے ۔ ان خواتین کو آسٹریلیا آنے کے بعد ایک طرف جذباتی پیچیدگی کا سامنا ہوتا ہے جہاں وہ خود کو اپنی ثقافت اور خاندان سے دور محسوس کرتی ہیں ۔ دوسری طرف یہ خواتین اپنی گھریلو ذمہ داریوں اور کم عمر بچوں کی پرورش کے باعث اپنے کیئریر کو آگے بڑھانے میں بھی اکثر ناکام رہتی ہیں ۔
فائزہ یاسمین کے مطابق کئی عوامل ہیں جو خواتین کو ان کے شعبے میں ان کی سطح کے مطابق روزگار کے حصول میں مانع ہیں ۔ آسٹریلوی لیبر مارکیٹ سے پوری طرح آگاہ نہ ہونا، شعبہ جاتی انگریزی زبان سے کم یا عدم واقفیت،مقامی ثقافت سے دوری بھی پاکستانی خواتین کے لئے آسٹریلوی جاب مارکیٹ میں جگہ نہ بنا سکنے کی ایک اہم وجہ ہے ۔ ان مسائل کے باعث یا تو پاکستانی خواتین ہمت ہار کر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا اپنی سطح سے کم کی نوکری کرنے پر رضامند ہو جاتی ہیں ۔فائزہ کے مطابق نوکری نہ کرنے کے باعث پاکستانی خواتین کو اکثر آسٹریلوی ماحول میں تنقید کا سامنا ہوتا ہے جبکہ
درحقیقت پاکستانی خواتین معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ درپیش حالات کا شکار ہیں
دوسری طرف فائزہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر خواتین مقامی جاب مارکیٹ سے آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے شعبے تبدیل بھی کر لیتی ہیں ۔ فائزہ کے مطابق وہ شعبے جن سے وابستہ خواتین زیادہ تر اپنے کیئریر سے دور ہوجاتی ہیں ان میں طب اور نفسیات سر فہرست ہیں ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے فائزہ کا کہنا تھا کہ طب یا نفسیات کے شعبوں کی ڈگریوں کوآسٹریلوی اداروں سے تسلیم کروانے کا عمل انتہائی وقت طلب اور پیچیدہ ہے ۔
فائزہ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں آسٹریلوی حکومت کو اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حا لات میں جب کہ کووڈ 19 کے تناظر میں آسٹریلین طب کے شعبے کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے حکومت ان پاکستانی خواتین کے تجربے اور تعلیم سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی خواتی کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتدا میں اپنے ہی شعبے میں نسبتا کم سطح کی نوکری کرنا شعبہ تبدیل کرنے سے بہتر ہے ۔