اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجارچ کے بقول بشردوستانہ شیلٹرز پر بھی بمباری کی گئی ہے، جس کے باعث اموات اور تباہی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق نکاسی آب، صحت کے مسائل اور پانی کی کمیابی نے غزہ کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ غزہ میں زیر زمین پانی کے 83 فیصد کنیوں خشک ہوچکے ہیں اور فاضل آب کی پراسیسنگ کا نظام ناکارہ ہوکر رہ چکا ہے۔
تازہ ترین اسرائیلی بمباری میں مزید کم از کم 67 فلسطینیوں کی موت ہوچلی ہے اور ان میں سے بیشتر وہاں بمباری کا شکار ہوئے جہاں جنگ سے دور پناہ کے متلاشی سویلینز کو جانے کے لیے کہا گیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گانٹز کے بقول حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی آزادی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں چند ارکان پارلیمان تین مجوزہ قانون پر غور کر رہے ہیں جن کی نوعیت بظاہر محض علامتی حیثیت کی ہے۔ اس مدعے پر برسراقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان کے مابین خاصا شور شرابا بھی دیکھا گیا جب ایوان کی اسپیکر لنڈزے ہویلی نے کارروائی معطل کی۔
یہ شور شرابا اس وقت پیدا ہوا جب اپوزیشن سے وابستہ اسکاٹش نیشنل پارٹی نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کے لیے موشن جمع کروائی۔ اس موشن میں غزہ میں جاری جنگ کو فلسطینیوں کی مجموعی سزا تعبیر کیا گیا تھا۔
تاہم اپوزیشن کی بڑی جماعت لیبر پارٹی نے اس موشن کا قدرے نرم ورژن جمع کروایا، جس میں مجموعی سزا والے نکتے کو نکال کر "بشردوستانہ سیز فائر" کا مطالبہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے میں قریب 1200 لوگ مارے گئے تھے اور لگ بھگ 250 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں جاری اسرائیلی کارروائیوں میں فلسطینی حکام کے مطابق غزہ میں قریب 29000 لوگ مارے جاچکے ہیں۔
\