آسٹریلیا میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کو انتباہ ۔ زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں فراڈ کا نشانہ مت بنئے

Anxious woman with credit card shopping online

Young frustrated female sitting in front of laptop with credit card and touching forehead having problems with scammers Source: Moment RF / Juan Algar/Getty Images

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس آسٹریلیا میں ممکنہ طور پر مالی غبن اور کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے والے گروہوں کا نشانہ بن سکتے ہیں جو انہیں گھر بیٹھے آنلائن ڈالرز کمانے کا جھانسہ دیتے ہیں۔


آسٹریلیا کی فیڈرل پولیس اور مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ مزید جرائم پیشہ گروہ ان طالب علموں کو "سرمائے کا خچر" بنانے کا جھانسہ دے کر اپنا کالا دھن سفید دھن میں تبدیل کر رہے ہیں۔

اگرچہ سائبر کرائم الجہتی ہو سکتے ہیں، لیکن ایک بڑھتی ہوئی تشویش نے سب کو پریشان کر رکھا ہے، نہ صرف آسٹریلیا میں رہنے والے مقامی افراد کو بلکہ یہاں آنے والے نئے انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس بھی اس سے نالا ہیں۔

آسٹریلیئن فیڈرل پولیس کے ایک ترجمان ٹم سٹینٹون کے بقول بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث اسٹوڈنٹس زیادہ پریشان ہیں اور یوں باآسانی ان گروہوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب مالیاتی اداروں کا بھی کام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جو اپنے صارفین کو مسلسل ٹیلیفون اور میسج کرکے محتاط رہنے کا کہہ رہے ہیں۔

این اے بی کے ایگزیکٹو فار گروپ انویسٹی گیشن اینڈ فراڈ کرس شیہان کا کہنا ہے کہ "سرمائے کے خچر" بن جانے کا مسئلہ سب ہی کو پریشان کر رہا ہے۔

اے این زیڈ کی پیچیدہ تحقیقاتی ٹیم کے مارک بروم کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال کے آخر سے اب ک ایسے ہزاروں "خچروں" کے اکاؤنٹس کو دیکھا ہے جو مالیاتی فراڈ کرنے والوں کے جھانسے میں آئے ہیں۔

منی مولنگ یا پیسے کی خرکاری دراصل ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں مالیاتی غبن کرنے والے گروہ ایک دفعہ کی پیمنٹ کے ذریعے کسی کے اکاونٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے اپنے کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس اکاونٹ کو پھر ہر قسم کی مالیاتی ٹرانزیکشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

آسٹریلیئن فیڈرل پولیس کے ترجمان ٹم سٹینٹون کے بقول یہ نہ رکنے والا سلسلہ سالوں تک پھر چلتا ہے۔

اس ہفتے، آسٹریلیا کی فیڈرل پولیس نے 39 یونیورسٹیوں میں سات زبانوں میں آگاہی مہم شروع کی، ان خدشات پر کہ بین الاقوامی طلباء آسٹریلیا میں فوجداری قوانین سے ناواقف ہیں۔

این اے بی کے ایگزیکٹو فار گروپ انویسٹی گیشن اینڈ فراڈ کرس شیہان کا کہنا ہے کہ کچھ طالب علم اس میں جان بوجھ کر بھی حصہ لیتے ہیں۔

جبکہ مارک بروم کا کہنا ہے کہ بہت سے اسٹوڈنٹس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور درحقیقت یہ ایک جرم ہے۔

متاثرین سے ٹِک ٹاک، اسنیپ چیٹ اور واٹس ایپ سمیت پلیٹ فارمز پر روبرو اور آن لائن رابطہ کیا جاتا ہے۔

ڈیسما اسمتھ سوائنبرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں بین الاقوامی طلباء کی مشاورت اور معاونت میں کام کرتی ہیں۔

کچھ بینکوں نے حال ہی میں ان "خچر کھاتوں" کی نشاندہی کرنے کے لیے نئے نظام متعارف کرائے ہیں جس کی وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ آسٹریلیا بھر میں بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔

شئیر