اب جبکہ لاک ڈاون ختم ہوچکا ہے پھر بھی بہت سے دفاتر اور فرمیں اپنے ملازمین کو اجازت دے رہے ہیں کہ وہ دفتر کے کام کا گھر بیٹھ کر ہی کر لیں۔ لیکن کیا گھر سے کام کرنا ایک روایت بن جائے گا اور یہ سلسہ جاری رہے گا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے سے اور پھر اپنے آپ سے بھی پوچھ رہے ہیں۔ جسکی وجہ سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اس سوال کا جواب زندگی کے بہت سے فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جیسے کہ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق نے اشارہ کیا ہے کہ دفتر میں موجود رہ کر کام کرنے کی پابندی نہ ہونے کے باعث لوگوں نے بڑے شہروں سے چھوٹے قصبوں اور چھوٹے شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔
اسکی ایک مثال ہے بڈلے سالٹرٹن۔ جسکے بارے میں آپ نے شاید ہی سنا ہوگا۔ یہ ڈیون کی انگلش کاونٹی میں سمندر کے کنارے بسا ایک چھوٹا شہر ہے جسکی آبادی 6000 سے بھی کم ہے۔
یہاں کے رہائشی میٹ لانگ بوٹ کے نام سے ایک کیفے چلاتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس سال ہم موسم سرما میں بھی کھلے ہیں اور ہمارا کیفے چل رہا ہے۔ یہ عجیب اس لیے ہے کیوں کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ہمیں شدید سردی میں بھی گاہک ملیں۔
پچھلے سال ہم کرسٹمس کے ہفتے میں بھی کھلے تھے اور وہ اتنا ہی مصروف وقت تھا جتنا گرمیوں میں کام اپنے عروج پر ہوتا ہے۔
اور مزید کچھ خاص یہ ہوا ہے کہ اس شدید سردی میں بھی علاقے کی ہائی اسٹریٹ پر کوئی بھی دکان خالی نظر نہیں آرہی۔ جو یہاں کے ایک دکان دار کے مطابق اس سال کی ایک خوشخبری ہے اور انکے کاروبار کیلیے بہترین ہے۔
ہاں، میرے خیال میں ہم بہت اچھا کر رہے ہیں اور کووڈ سے پہلے کی مارکیٹ کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ کما رہے ہیں۔
جب ہاؤسنگ مارکیٹوں کی بات آتی ہے تو، رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اسے 'خوشگوار' سمجھ رہے ہیں۔ بڈلے سالٹرٹن کو کووڈ سے قبل ریٹائر ہونے کی جگہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اور لوگ یہاں اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے آیا کرتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اور بڈلے اب 'گھر سے کام کرنے' افراد کیلیے ایک ہاٹ اسپاٹ بن گیا ہے۔
حال ہی میں ایڈم سویٹس جو پیشے کے اعتبار سے ایک اسٹرکچرل انجینئر ہیں اور مارک کوڈفری جو شادی حال چلاتے ہیں نے بڈلے کو اپنا مستقل گھر بنا لیا ہے۔
ایڈم: "ہم کووڈ کے دوران اپنے خوابوں کا گھر تلاش کرنے میں خوش قسمت رہے۔ کووڈرپورٹر: "آپ کو کتنی بار دفتر جانا پڑتا ہے؟"ایڈم: "ہفتے میں دو بار شاید اب، اور باقی میں صرف گھر سے کرتا ہوں۔مارک: "یہاں 10، 20 خاندان ہیں جو سب میں منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ کافی خاندانی دوستانہ علاقہ بن گیا ہے۔"رپورٹر: "زندگی بدل گئی ہے، ہے نا؟"آدم: "اوہ، مکمل طور پر، مکمل طور پر تبدیل
برطانیہ میں 500 سے زائد مقامات کے موبائل فون ڈیٹا پر مبنی ایک تحقیق میں کچھ دلچسپ ڈیٹا سامنے آیا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2022 میں لندن شہر کی آبادی میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
لیکن بہت سے چھوٹے قصبے، شہر اور انکے مضافاتی علاقے بڑے شہروں سے منتقل ہونے والے افراد کے باعث نسبتا مصروف ہوگئے ہیں۔
اور امید کی جارہی ہے کہ یہ رحجان جلد ہی آسٹریلیا میں بھی آجائے گا۔
وکٹورین چیمبر آف کامرس سے پال گیرا کا کہنا ہے کہ ریجنل آسٹریلیا تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اسکی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مضٓفاتی علاقوں میں دفاتر کافی اچھے سے کام کر رہے ہیں۔ اور میں نے ریجنل علاقوں میں بھی وقت گزارا ہے تو میں جانتا ہوں کہ وہاں بھی کام اچھے سے چل رہا ہے۔ میرے خیال میں یہی موقع ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم سی بی ڈی کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں ۔"
لیکن ہر کوئی بڑے شہروں سے مضافاتی علاقوں کی طرف اس نقل مکانی کے رحجان سے خوش نہیں ہے۔
مارینو پلیجیوٹس سڈنی کے سی بی ڈی میں ایک کیفے چلاتے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ برس ستمبر میں ایس بی ایس ورلڈ نیوز کو بتایا کہ لوگوں کے گھر سے کام کرنے کا براہ راست اثر شہر کے مرکز کے کاروبار پر پڑتا ہے۔
"لوگوں کو گھروں پر رہنے کا کہنا ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ کیونکہ آپ بہت سے نیوز ایجنٹس، پھول فروشوں، کیمسٹس، اور چھوٹے کیفے اور ریستوران کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ جب آپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ باہر نہ نکلیں تو اسکا مطلب ہے کہ ان چھوٹے کاروباروں کے پاس پیسے کمانے کے کم مواقع ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس کم دن ہیں جن میں وہ اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ ہمیں کم از کم ہفتے میں ایک ایسا دن چاہیے ہوتا ہے جب ہم منافع کما سکیں۔ "
آسٹریلیا کی پراپرٹی کونسل سے تعلق رکھنے والے لیوک آچیٹرسٹراٹ کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ کام کی جگہ کو بہت سے لوگوں نے قبول کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ کووڈ نے ہمارے آپسی تعلقات میں لچک پیدا کردی ہے، تو اب چاہے آپ کام صبح شروع کریں یا دیر سے، کام جلدی ختم کریں یا دیر سے لوگ اب اتنی پرواہ نہیں کرتے۔
دوسری جانب برطانیہ میں ویک ڈے پر پانچ بجے کے وقت کو رش آوور یعنی دن کا مصروف ترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر آپ لندن شہر کے بھیچ میں جائیں تو یہ ناقابل یقین حد تک ویران ہوتا ہے۔
برطانوی پراپرٹی فرم کے سی ای او مارک ایلن کا کہنا ہے کہ برطانوی کورپوریٹ انڈسٹری یہ سمجھ چکی ہے کہ ہمارے کام کا ہفتہ اب مستقل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔
دوسری جانب یہاں آسٹریلیا میں، بہت سے تاجروں کو اس بات کی فکر تھی کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد عملے کے گھر سے کام کرنے کے باعث انکی پیداواری صلاحیت متاثر ہو گی ۔ لیکن آسٹریلین حکومت نے ستمبر 2021 کو ایک تحقیق 'ورکنگ فرام ہوم' شائع کی جس نے تاجروں کی اس فکر کے برعکس انکشاف کیا کہ درحقیقت یہ سوچنا درست نہیں ہے کیونکہ "بہت سے لوگ اپنے دفتر کے کام گھر بیٹھ کر بھی اسی طرح کر سکتے ہیں جیسے وہ آفس آکر کرتے ہیں اور فرموں کو جلد اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ انکے اخراجات میں درحقیقت کمی ہوئی ہے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔
مارک ایلن کا کہنا ہے کہ برطانوی تجربے سے ایسا لگتا ہے کہ ایسے دفاتر بنانے کی کوشش کرنی ہوگی جو درحقیقت اپنے ملازمین کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
"اور اگر وہاں جانے اور لنچ کرنے یا کام کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانے کے لیے زیادہ جگہیں نہیں ہیں۔ میرے خیال میں وہ جگہیں اپنی موجودہ شکل میں متعلقہ نہیں رہیں گی۔."
بڈلے سالٹرٹن میں والنٹیر ان کے نام سے ایک ہوٹل ہے جسکے مالک مائک ڈاون کے مطابق انکے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں بہت سارے لوگ ایسے ملتے ہیں جو صرف گھر سے باہر نکلنا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ خود اور ان کے لیپ ٹاپ انکے ساتھ آسکتے ہیں اور اس سب نے ہمیں بہت زیادہ مصروف کر دیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے۔.
اس بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ دفتر ایک اسی جگہ بنتا جا رہا ہے جہاں جب آپ کا دل چاہے آپ تب جائیں بجائے اسکے کہ آپ کا دفتر میں حاضری لگوانا لازمی ہو۔