ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں خود کشی کی شرح ڈھائی اشاریہ ہے۔ سعودی عرب میں 3.9 فیصد، بھارت میں 16 فیصد اور آسٹریلیا میں 10.4 فیصد ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق پچھلے سال ملک میں کم سے کم 2131 افراد نے خودکشی کی اور 1531 نے خودکشی کی کوشش۔
یہ تمام اعداد و شمار ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس بات کا بھی کہ خودکشی کی کوشش کرنے والوں کو فوری طور پر مدد اور بحالی کی ضرورت ہے۔
آسٹریلیا میں اکثر پاکستانی کمیونٹی ڈپریشن اور اینزآئٹی کو بیماری نہیں سمجھتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ نماز ہر چیز کا حل ہے۔ کہتے ہیں ’پانچ وقت کی نماز پڑھو تو سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی‘. یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔
سڈنی میں مقیم ماہرِنفسیات آمنہ پرویز کا کہنا ہے کہ ابھی بھی نفسیاتی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور جو ان مسائل سے گزر رہے ہیں انہیں خاموشی میں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زندہ بچ جانے والے افراد بعد میں صدمے سے گزر رہے ہوتے ہیں اور انہیں نفسیاتی علاج اور مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں اکثر پاکستانی کمیونٹی ڈپریشن اور اینزآئٹی کو بیماری نہیں سمجھتے اور جہالت کا کمبل اوڑھ لیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ نماز ہر چیز کا حل ہے۔ کہتے ہیں ’پانچ وقت کی نماز پڑھو تو سب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی‘. یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔
روحانی ہونے میں کوئی غلط بات نہیں ہے مگر ذہنی صحت کی دشواریوں کو جسمانی صحت کے مسائل اور بیماریوں کی طرح سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ اسے بھی پیشہ ورانہ توجہ اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔