کالج اور اسکول سے فارغ ہونے کے بعد شام کو نوجوان سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے اور اکثر راہ گیروں اور محلے والوں کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرتے۔ ’خالہ بال آگئی ہے‘ ، ’انکل بال دی دیں‘ کے بک بک جھک جھک کرتے مکالموں میں لڑکوں کی ملتجی منمناتی آوازیں اہل محلہ کی جھنجلاہٹ اور غصہ سب ہی شامل ہوجاتا۔ اور اگر بال سے کسی گھر کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنا تو مکیں کے گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ہی پوری ٹیم گلی سے نو دو گیارہ اور شور و غل اور چوکوں چھکوں کی جگہ گلی میں اچانک سناٹا، سب لڑکے ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ یہ منظر نامہ پاکستان کے کئی شہروں ، قصبوں اور محلوں میں عام ہے۔ پاکستان میں شائید سنہ ستر اور اسّی کے عشرے میں نوجوانوں میں نائیٹ کرکٹ مقبول ہونا شروع ہوئی تو خود رو پودوں کی طرح اس کے اصول و ضوابط بھی خود بخود بنتے چلے گئے۔ اس زمانے میں کرکٹ کھیلنے والے امجد سہیل کراچی کے محلے ناظم آباد کی سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ تب ہی سے لڑکوں نےگروپس بنانے شروع کئے اور مختصر فارمیٹ میں ٹیپ بال سے کھیلنے والی کرکٹ ٹیمیں بننے لگیں۔ محلوں کی ٹیموں کے درمیان میچیز شروع ہو گئے اور پھر مشروم کی طرح پھلنے پھولنے والی یہ نائیٹ کرکٹ رمضان میں باقاعدہ رمضان نائیٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کی کثیر القومی حیثیت رکھنے والے شہر کراچی کو جکڑنے والے اس مقامی بخار نے جلد ہی پاکستان بھر کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا اور آج شہر شہر محلہ محلہ ملک بھر میں یہ نائیٹ کرکٹ مقبول ہے۔
جاوید نظر جو خود کاونٹی کرکٹ کھیل چکے ہیں اور آجکل سڈنی میں مقیم ہیں وہ گلیوں محلوں کی اس نائیٹ کرکٹ کے اپنے دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل ٹی ٹونٹی کرکٹ اسٹریٹ کرکٹ کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ جب نوجوانوں کے پاس وسائل کم مگر کھیل کا جذبہ بڑا تھا تب وقت کی کمی اور ٹیموں کی بڑھتی تعداد کے باعث نائیٹ اسٹریٹ کرکٹ میں نت نئے تجربات کئے گئے اور محدود اوورز کے میچیز میں مختصر فارمیٹ کی کرکٹ مقبول ہونا شروع ہوئی۔
رمضان میں جب شہروں کے باسی سوتے ہیں تو رات کے گھپ اندھیروں کو چیرتی اسٹریٹ لائیٹس سے گلیاں روشن ہونا شروع ہوتی ہیں اور پھر اچانک محلے کی سڑکوں پر کرکٹ کے روپ میں زندگی جاگنا شروع ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان سج جاتا ہے اور ٹیمیں پوزیشن سنبھال لیتی ہیں۔
رمضان کی راتوں میں تراویح کے بعد سحر تک جگہ جگہ گلیوں محلوں کی سڑکوں پر کرکٹ کا راج ہوتا ہے۔ اور انہی گلیوں میں پھلنے پھولنے والے جادوگر کھلاڑی اپنی نت نئی شعبدے بازیوں سے کچی پکی سڑکوں پر بنی فیلڈ پر بولنگ، فیلڈنگ اور بیٹینگ کے چمتکار دکھاتے ہیں۔ اور انہی جادگروں میں سے کئی اپنی مہارت، شوق اور ٹیلنٹ کے باعث کسی جوہری کی نظر میں آجائیں تو ان پر پروفیشنل کرکٹ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ۔ یوں ان میں سے کئی مقامی کرکٹ سےنکل کر صوبائی اور ملکی سطح پر پہچانے جاتے ہیں اور اگر قسمت کی دیوی مہربان ہو تو ان میں کچھ عالمی افق پر جگمگاتے ہیں۔ جاوید نظر کہتے ہیں کہ یہ صرف لفاظی نہیں ہے بلکہ اسی اسٹریٹ کرکٹ نے دنیائے کرکٹ کو بڑے بڑے نام دئے ہیں۔ رفیع اللہ کراچی کے علاقے پنجاب کالونی میں رہتے ہیں، آسٹریلیا میں بھی کرکٹ کھیلتے رہے اور پاکستان میں بھی اسٹریٹ کرکٹ کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسٹریٹ کرکٹ بھی بہت کمرشل اور ڈیامنڈنگ ہو چکی ہے۔ جس انٹری فیسس اور انعامی فیس ہی ہزاروں سے لاکھوں رپئے تک پہنچ چکی ہے۔

Street cricket is a popular sport in Pakistan. Source: Karachi night cricket league
آسٹریلیا میں گرونڈس اور پارکس کی موجودگی میں گلیوں اور سڑکوں پر تو کرکٹ نہیں کھیلی جاتی مگر کچھ گروپس نائیٹ کرکٹ کے دوستانہ میچز منقعد کرتے ہیں۔ سڈنی نائیٹ کرکٹ لیگ بھی اسی طرز پر کرکٹ مقابلے کرواتی ہے۔
رمضان میں نائیٹ کرکٹ میں کھیل کے ذریعے مثبت جسمانی اور ذہنی سرگرمی کا مقصد تو شامل ہے ہی مگر ساتھ ہی ورزش، افطاری ہضم کرنےسے لے کر سحری کھانے کی تیاری کا نسخہ بھی اسی نائیٹ رمضان کرکٹ کا کرشمہ ہے۔ اور کچھ گروپ توخواتین کی نائیٹ کرکٹ کے خیال کی بھی تائید کر رہے ہیں۔
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے سب سے اوپر دئیے ہوئے اسپیکر آئیکون پر کلک کیجئے یا نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
- S, ,
- یا کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے