مہنگائی سے پریشان آسٹریلوی عوام کے لیے سال 2024 کیا لیے آرہا ہے؟

OTM - Review (SBS).jpg

On the Money review of the year Source: SBS

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

سال 2023 اب چند ہی دنوں کا مہمان ہے لیکن یہ جاتے جاتے گزرے تمام برس کے دوران کڑے اقتصادی امتحانات کی یاد چھوڑے جارہا ہے جب آسٹریلیا اور دنیا بھر میں لوگ اخراجات زندگی کے بڑھتے ہوے بوجھ تلے خاصے پریشان رہے۔ ایسے اندازے لگاے جارہے ہیں کہ اگلا برس اس سے بھی سخت ثابت ہوسکتا ہے۔


سال 2023 ایک ایسا سال ہے جسے بہت سارے لوگ بھلا دینا چاہتے ہیں۔ یہ برس بہت سے ایسے امتحانات لے کر آیا، جو بظاہر بہتری کے لیے نہیں تھے۔

آسمان کو چھوتی مہنگای نے آسٹریلیا اور دنیا بھر میں مالیاتی بازار کو متاثر کیا، جس کے عوامل میں روس اور یوکراین کی جنگ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی شامل تھیں۔

امریکا کے اسٹیونز انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر جورج کیلھون کے بقول مہنگای بظاہر لوگوں کی توجہ ان اصلی عوامل سے ہٹاسکتی ہے جو دنیا کو بدل رہے ہیں: "مہنگای کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ یہ دیگرے بڑے مسائل کے سامنے ایک پردے کی طرح ہے جو اقتصادی مسائل کے دائرے سے باہر ہیں جیسا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے کیسا نمٹا جاے، یوکرائن کی جنگ سے کیسے نمٹا جاے، چین کی صورتحال اور ملک کے اندر بڑھتی سیاسی خلیج کا کیا جاے۔"

آسٹریلیا کی اقتصادی صورتحال پر اگر نگاہ ڈالی جاے تو ایسے بہت سارے عوامل تھے جنہوں نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

capital.com کے سینئر فائنانشیئل تجزیہ نگار کائل روڈا کہتے ہیں کہ گزشتہ تمام برس کے دوران ایک ایسا واقعہ تھا جو دیگر تمام پر بھاری رہا: "میرے خیال میں آسٹریلیا کی مالیاتی منڈیوں میں سب سے زیادہ تہلکہ مچانے والا مدعا کوانٹس ایئرلائن کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہےکہ یہ کئی سال تک بھرپور منافے میں رہا لیکن صارفین اور معاشرے کے افراد میں اس سے متعلق شکایات بھی خاصی بڑھ چکی ہیں. میرے خیال میں بعض مسائل ابھر کا سامنے آے ہیں جیسا کہ کیپٹلزم کے لحاظ سے پوری دنیا میں زیادہ وسیع پیمانے پر شیئر ہولڈرز کے مطالبات اور خالص منافع کو کمیونٹی اور سیاسی ماحول کے ساتھ متوازن ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ تو ہم نے عملی طور پر دیکھا کہ کوانٹس کے تمام بورڈ کو کامل طور پر بدل دی گیا اور ایلن جوائس چھوڑ کر چلے گئے۔ میرے خیال میں یہ کاروباری حلقوں میں سب سے بڑی تبدیلی تھی اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کاروباری کیسے چل رہے ہیں۔"

فضائی کمپنی کوانٹس کے سی ای او واحد شخص نہیں تھے جوں نے سال 2023 کے دوران مستعفی ہوے۔

فیلپ لوئی بھی بینک دولت آسٹریلیا کے سربراہ کی حیثیت میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوے۔ یہ رواں برس شرح سود میں پے درپے متعدد اضافوں کے بعد ہوا جو فی الحال 5.4 کی شرح پر ہے۔

اسی طرح آپٹس کی سی ای او کیلی روزمیرن کو بھی رخصت ہونا پڑا جب ان کی کمپنی کا نیٹ ورک کئی گھنٹوں تک منقطع رہا اور صارفین انٹرنیٹ اور فون کی خدمات سے محروم رہے.

جناب روڈا کہتے ہیں کہ لیڈرشپ کی سطح پر یہ تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ لوگ اب مسلسل غلطیوں کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں۔

"میرے خیال میں تو یہ ایک شاندار احتساب ہے گرچہ یہ سننے میں پرانی بات لگتی ہے۔ 24 گھنٹے خبروں کی سرخیاں اور سوشل میڈیا پر گہماگہمی ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں جو کارپوریٹ شعبے کی چھوٹی موٹی غلطیاں بھی برداشت نہیں کرتا اور کڑا احتساب کرتا ہے۔ اور ہم بین الاقوامی سطح پر اور یہاں بھی شیئر ہولڈر کیپٹلزم میں تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں جو اب ماضی کے مقابلے میں محض منافع پر نہیں بلکہ شیئر ہولڈرز کے مسائل، مجموعی طور پر معاشرے کی خدوخال، سیاست اور ماحول کو بھی بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور میڈیا اور ٹیکنالوجی کے باعث احتساب بھی کڑا ہوچکا ہے۔"

سال 2023 میں بہت سے لوگوں نے دنیا کو بدلتے دیکھا جو کووڈ وباء کے اثرات سے آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔

کمپنیاں اس کوشش میں رہیں کہ کارکنان کے نئے نظام کار اور اوقات کو کس طرح ترتیب دیا جاے۔ بہت سے اداروں نے ان ملازمین پر دباو بڑھاے رکھا جو گھر سے کام کرنے کے خواہاں رہے۔بہت سے ایسے افراد جو کووڈ کے دوران ملازمتیں گنواں بیٹھے تھے دوبارہ کام پر لگ گئے۔

اسٹیونز انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر جورج کیلھون کے بقول یہ روش اگلے برس بھی برقرار رہے گی۔

"وباءنے لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے خارج کر دیا تھا جو اب لوٹ رہے ہیں یہ سوچ کر کہ ان کی عمر خاصی زیادہ ہے یا ان کے پاسے خاصہ سرمایہ موجود ہے اور وہ آخر کب تک گھر پر بیٹھے رہیں گے۔ تو ان میں سے بیشتر لوگ اب دوبارہ کام پر لوٹ رہے ہیں۔ تو میرے خیال میں سال 2020 اور 2021 کے شدید دھچکوں کے بعد لیبر مارکیٹ پھر سے نارمل حالت کی جانب لوٹ رہی ہے۔"

سال 2023 کے آخرے حصے نے مہنگائی سے پریشان آسٹریلین عوام کو امید کی ایک کرن دکھائی دی جب شرح سود میں مزید اضافہ نہیں کیا گیا ۔

اگلے برس امید کی جارہی ہے کہ مہنگائی اور شرح سود میں کمی کے بعد صورتحال مزید بہتر ہوجاے گی۔

جناب روڈا کے مطابق سال 2024 میں اصل امتحان یہ ہوگا کہ مہنگای کو مزید کم کیا جاسکے۔

"میرے خیال میں ہم ایسے موقع پر ہیں جب بالکل آخری چند لمحات کا کام باقی ہے جب 90 فیصد کام بہت تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے اور آخری 10 فیصد کام بہت سست روی سے بڑھتا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے یہ کب ہوگا اور کیسے ہوگا؟ کیا یہ کساد بازاری ہے؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا مناسب ہے کہ ہم ابھی نئے سال کے آغاز میں جہاں ہیں، وہاں ہم کافی اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ عالمی شرح سود عروج پر پہنچ چکی ہے اور اگلے سال کسی وقت وہ نیچے آ جائے گی۔"

آیا عالمی سطح پر منڈیاں مہنگائی کے مسئلے سے نکل پائیں گی ؟ اس کا زیاد دارومدار حالات پر ہے۔

ایک طرف یہ دو جنگیں جنہوں نے تجارتی راہداریوں کو مثاثر کیے رکھا ہے اور دوسری جانب امریکا کے صدارتی اور یورپی پارلیمان کے انتخابات اور چین کے بڑھتے ہوے اثرورسوخ نے معیشت کو حساس موڑ پر لا رکھا ہے۔ اگلا برس اپنے اندر مزید امتحانات سمیٹے ہوے ہے۔


شئیر