اردو کے عظیم مزاحمتی شاعروں میں علامہ سر محمد اقبال، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، ساحرؔ لدھیانوی،بسمل، حبیب جالبؔ، فیض احمد فیضؔ ، جوش ملیح آبادی ، برج نرائن چکبست سمیت کئی سو نا معلوم و گمنام شعرا شامل ہیں جن کے اشعار نے ہندوستان کی آذادی سے لے کر آج تک اپنے انقلابی شعروں سے اپنے اپنے ادوار میں بغاوتوں، شورشوں اور حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کا ساتھ دیا ہے۔
Source: national archive of Pakistan
تاریخی کے صفحات پلٹ کر پیچھے دیکھیں تو ہندوستان کی تحریک آذادی میں الطاف حسین حالی نے نظم ’حب وطن‘ سے جرات مندانہ شاعری کا علم بلند کیا۔ جس کے بعد شبلی ، اقبال، ساحرؔ ،بسمل، جوش ، چکبست ، درگاہ شاہی، ظفر علی خان، حسرت موہانی، برج نرائین، سمیت کئی سو معروف و گمنام شعرا انگریزوں سے آزادی کی اس تحریک کی آواز بنتے رہے۔
اسی دور میں حسرت موہانی کی معروف نظم ’ انقلاب زندہ باد‘ آذادی کا ترانہ بن گئی تھی۔
برصغیر کی آذادی کے بعد بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر شاعری غمِ جاناں سے ہٹ کر غمِ دوراں کو موضوع کو شعر و سخن بناتی رہی۔ بھارت میں اردو شاعری سے نا بلد حلقے فیض کی نظم ہم دیکھیں گے کہ اِن اشعار پر وبال کھڑا کرتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ نکتہ چینی کرنے والے خود اردو شاعری میں بتوں، حرم، ،اور خدا، یسےاستعاروں کے استعمال سے ہی نا بلد ہیں۔
اردو شاعری میں انقلابی شاعری کرنے والوں کچھ شعرا کا منتخب کلام استعاروں اور تشبیہات کے استعمال کی عکاسی کرتا ہے۔
علامہ اقبال
اٹھومری دنیا کے غریبوں کو جگادو ۔ کاخ امراء کے درد دیوار ہلا دو!
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے ۔ کنجشاک فرو مایہ کو شاہین سے لڑادو
Source: Archive
اے جواں مردوں خدارا باندھ لو سر سے کفن ۔ یا تو اب تاج پہنیں گے یا خو نی کفن
جوش ملیح آبادی کا نعرہ شباب
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب میرا نعرہ انقلا ب انقلاب انقلاب
Source: Supplied
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار ۔ آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
جس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں ۔ جس دیس کے سادہ لوح انساں وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے ۔ اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
Source: Getty
حبیب جالب
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نُور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانت
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی ۔ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا۔جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
Source: Facebook
اسرار الحق مجاز
سرکشی کی تند آندھی دم بہ دم چڑھتی ہوئی ۔ ہر طرف یلغار کرتی ہر طرف بڑھتی ہوئی
ساحر لدھیانوی
بم گھروں پر گریں کہ سر حد پر۔ روح تعمیر زخم کھاتی ہے ۔ ٹینک آگے بڑھیں کے پیچھے ہٹیں ۔ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے ۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ۔ جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں ۔ روئی کی طرح اُڑ جائیں گے ۔ ہم محکوموں کے پاؤں تلے ۔ یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر ۔ جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ۔ جب ارضِ خدا کے کعبے سےسب بُت اُٹھوائے جائیں گے ۔
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم ۔ مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے ۔ سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کاجو غائب بھی ہے حاضر بھی ۔ جو ناظر بھی ہے منظر بھی ۔ اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔ اور راج کرے گی خلقِ خدا ۔ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔
Image Source: The citizen archive of Pakistan
اس آرٹیکل کا کچھ مواد ویکی یپیڈیا سے اخذ کیا گیا یے۔
قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر یہ تحریر مئی ۲۰۲۳ میں دوبارہ ایپ ڈیٹ کی گئی