آسٹریلیا میں کووڈ سے متاثر ہونے والوں میں بین اللقوامی طلبا کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ کرونا کی وبا کے بحران کے باعث ان طلبا کے روزگار اور تعلیم دونوں ہی پر اثر پڑا۔ اور بہت سے طلبا آسٹریلیا چھوڑنے پر مجبور ہوئے، تو دوسری طرف یہاں موجود انٹرنیشنل طلبا و طالبات کے لئے محدود گھنٹون کی ملازمت کے مواقع بھی تقریبا ختم ہوگئے۔ مگر ایسے میں کچھ طلبا و طالبات ایسے بھی تھے جنہوں نے مختلف حکمتِ عملی اپنائی اور کووڈ کا بحران ان کے لئے نئے مواقع لے کر آیا۔ ماریہ بانو ایسی انٹرنیشنیل طالبات میں سے ایک ہیں جنہوں نے مستقل مزاجی سے پڑھائی پر توجے دی اور کمانے کے لئے جاب کے بجائے جزوی اسکالر شپ پر توجے مرکوز کی۔ ۔ ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کے بعض طلبا پڑھائی کے بجائے ملازمت پر وقت لگانے لگتے ہیں اور بعض بار بار تعلیمی شعبہ بدلتے رہتے ہیں جو ان کی پڑھائی کو متاثر کرتا ہے۔مزمل حفیظ طلبا امور کے مایگریشن کمپنی چلارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیشنیل اسٹوڈنٹ کو اپنی فیلڈ کے لئے شارٹ ٹرم پلان کے بجائے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کر نا چاہئے۔ طلبا کو آنے سے پہلے ریسرچ کی ضرورت ہے اور صرف سڈنی یا میلبورن جیسے بڑے شہروں کی جاب مارکیٹ کو ٹارگٹ نہ کریں بلکہ آپ کے شعبے میں جہاں بھی مواقع ہوں وہاں جانے کے لئے تیار رہیں۔
Maria Bano graduated in 2019 from university of Tasmania. Source: Maria Bano
آنے سے پہلے اپنے شعبے کے آسٹریلیین اداروں کے بارے میں آگاہی
درست تعلیمی شعبے کا انتخاب
ملازمت کے بجائے پڑھائی کو ترجیح
اپنی فیلڈ میں ملازمت کے لئے کوشش
اپنی کمیونیٹی سے باہر آسٹریلین لوگوں سے میل جول یا نیٹ ورکنگ
مزمل کا کہنا ہے کہ کووڈ کے بعد معاشی بحالی کے لئے آسٹریلین حکومت نے ملازمین کی کمی پر قابو پانے کے لئے انٹرنیشنل طلبأ کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے مگر وفاقی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی طلباء کے کام کرنے کے اوقات کی حد کو ہٹانے ؛ ویزہ فیس کی واپسی جیسے اقدامات کا تعلق وقتی طور پر روزگار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے ۔ ماریہ بانو اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ پی آر کے حصول کے لئے مختلف مائینڈ سیٹ کی ضرورت ہے۔ اور اب ایک ایسے وقت کام کرنے والوں کی قلت نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے ہیں ایسے میں طلبا کو صرف ویجز کے لئے غیر متعلقہ شعبون میں ملازمت کے بجائے اپنے شعبے میں ملازمت ڈھونڈنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا چاہیئے تاکہ پی آر کی راہ ہموار ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "رہائش تلاش کرنا خاص طور پر طالبات کے لیے مشکل ہے لیکن طالب علموں کے مشیروں اور رابطہ افسران نے کھانے اور رہائش جیسی رکاوٹوں کو دور کرنے میں میری مدد کی۔"
یہ بھی پڑھئے
ماریا ایک طلبا کے مشیر سے رابطہ کرنے کی سختی سے سفارش کرتی ہیں جو پڑھائی، مشکل ذاتی حالات کے اثرات کو سنبھالنے، طالب علم کی دیگر خدمات سے منسلک ہونے، یونیورسٹی کے نظام اور عمل کو سمجھنے، کے ساتھ پڑھائی اور تعلیم کے درمیان توازن پیدا کرنے میں بین الاقوامی طلباء کی مدد کر سکے۔
کووڈ ۱۹ کی وجہ سے بہت سے ملازمین قرنطینیہ میں چلے گئے ہیں جس کے باعث کام کارکنوں کی قلت پائی جا رہی ہے، متاثرہ شعبوں میں بیس گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے کی حد کو اٹھانا ملازمین کی قلت دور کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماریا نے 2019 کے اوائل میں تسمانیہ یونیورسٹی سے فارمیسی کے شعبے میں اپنی گریجویشن مکمل کی اوربڑی تلاش اور ہمت سے کاپ لیتے ہوئے میلبورن میں کام ملا۔
ان کی دوا ساز کمپنی نے روایتی تحقیق سے کووڈ سے متعلق تحقیق پر توجہ مرکوز کی اور یہاں سے ماریا کے لیے ترقی کے مواقع کھولے۔ماریہ کہتی ہیں کہ انہیں ایک مسلمان طالبہ کے طور پر حجاب پہننے یا حلال کھانے کی تلاش میں کسی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مجھے تسمانیہ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایک دور دراز ریجنل علاقہ ہے جہاں میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا سامنا کر سکتی ہوں لیکن مجھے مسلمان ہونے یا لڑکی ہونے کی وجہ سے کبھی بھی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا
انہوں نے مزید کہا کہ "رہائش تلاش کرنا خاص طور پر طالبات کے لیے مشکل ہے لیکن طالب علموں کے مشیروں اور رابطہ افسران نے کھانے اور رہائش جیسی رکاوٹوں کو دور کرنے میں میری مدد کی۔"
کچھ طلباء کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے انہیں وبائی امراض کے دوران بیرون ملک اپنے پیاروں کی مالی مدد کرنے میں مدد ملے گی۔
بین الاقوامی طلباء کی قابلیت کے بارے میں خدشات ہیں جو زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں، اپنے کورس کی رجسٹریشن برقرار رکھنے، کورس کی حاضری کو یقینی بنانے کے ساتھ کورس کی پیشرفت کو بھی یقینی بناتے ہیں۔
ماریہ کہتی ہیں کہ طالب علموں کو سی وی بنانے اور انٹرویوز کی تیاری کے لیے کافی مدد دستیاب ہے۔ ماریہ نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ تسمانیہ کے بارے میں بہت سی خود ساختہ باتیں تھیں لیکن میں نے اپنی نیٹ ورکنگ کی مہارت کو ہوبارٹ میں رہائش اور آباد کاری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "مجھے کسی نسل پرستی یا امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن مجھے دوست بنایا اور میں نے تسمانیہ کا بہت اچھا تجربہ کیا اور ہوبارٹ میں پڑھ کر علاقائی آسٹریلیا سے ایک طالب علم کے طور پر پی آر پوائنٹس بھی حاصل کیے"۔
ماریہ بانو اپنے شعبے میں کام کرنے کے فیصلے پر قائیم رہیں ۔ آج، ان کے پاس اپنے مطالعے کے شعبے میں مستقل ملازمت ہے اور وہ آسٹریلیا کی مستقل رہائشی بن گئی ہے۔ ماریہ کہتی ہیں کہ اگر بین الاقوامی طلباء اپنی پڑھائی پر توجہ دیں گے تو باقی اہداف حاصل کرنا مشکل نہیں یونیورسٹیز آسٹریلیا کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو پیٹر چیس ورتھ کا کہنا ہے کہ طلبا کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی آسٹریلیا آمد کا اصل مقصد تعلیم مکمل کرنا ہے اور ان کا ویزہ کام کرنے کا ویزہ نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی شرائیط پر جاری ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں اپنے پہلے سال میں آنے والے بین الاقوامی طلباء کے لیے سب سے اہم چیز اچھی روٹین تیار کرنا اور منظم ہونا ہے۔لیکن وہ کام کے اوقات کی حد کو ہٹانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک عارضی اقدام سمجھتے ہیں ۔
Maria Bano with a fellow of University of Tasmania Source: Maria Bano
- پوڈ کاسٹ سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
- , , t
- یا کو اپنا ہوم پیج بنائیں
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے