Key Points
- آسٹریلین جنگوں کو تب ہی تسلیم کیا جاسکتا تھا جب 'ٹیرا نولیس' کے اعلان کو قانونی طور پر چیلنج کر کے تبدیل کر دیا جائے۔
- نوآبادیاتی ریکارڈ اور آثار قدیمہ کے شواہد جو ماہرین کی ٹیموں کے ذریعہ دریافت کیے گئے ہیں وہ تنازعہ کے خوفناک پیمانے کو ظاہر کرتے ہیں۔
- نوآبادیاتی ریکارڈ اور آثار قدیمہ کے شواہد جو ماہرین کی ٹیموں کے ذریعہ دریافت کیے گئے ہیں وہ تنازعہ کے خوفناک پیمانے کو ظاہر کرتے ہیں۔
تنبہہ: اس مضمون اور پوڈ کاسٹ ایپی سوڈ میں تشدد کے حوالے ہیں جو کچھ لوگوں کو پریشان کر سکتے ہیں۔
جب کیپٹن جیمز کک پہلی بار اس کے ساحل پر پہنچے جسے اب آسٹریلیا کہا جاتا ہے، تو اس نے اس وسیع و عریض سرزمین کو’’ٹیرا نولیس‘‘ یعنی ایسی سرزمین قرار دیا جس سے کسی کا تعلق نہیں ہے۔ تاہم، جزیرے کا براعظم سینکڑوں مختلف ایبوریجنل اور ٹورس سٹریٹ آئی لینڈر قوموں اور قبیلوں کا گھر تھا - سیکڑوں ہزاروں انڈیجنس لوگ جنہیں فوری طور پر برطانوی تخت کے 'زیر نگین' سمجھا جانے لگا۔
یہ سرحدی جنگوں کا محرک بن گیا، مقامی لوگوں اور آباد کاروں کے درمیان وحشیانہ تنازعات جنہوں نے آسٹریلیا کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسی تاریخ جو اب تسلیم ہونے لگی ہے۔
فلمساز ریچل پرکنز یورپی ورثے کی حامل ایک آریرنٹ اور کالکاڈون خاتون ہیں۔ انہوں نے "دی آسٹریلین وارز" تیار کی، جو ایک دستاویزی سیریز ہے جس میں انڈیجنس لوگوں کی برطانوی آباد کاروں سے اپنی زمینوں کا دفاع کرنے کی جدوجہد کی نوعیت کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ وہ جنگیں تھیں جو آسٹریلیا میں لڑی گئیں، اور یہ وہ جنگیں تھیں جنہوں نے حقیقی معنوں میں جدید آسٹریلوی ریاست کو بنایا۔ریچل پرکنز، فلمساز۔
آسٹریلیا کی جنگیں 1788 میں پہلے بحری بیڑے کی آمد سے لے کر 1930 کی دہائی کے وسط تک پورے براعظم میں لڑی گئیں، لیکن ان تنازعات کو 20ویں صدی کے آخر تک اسکول میں نہیں پڑھایا گیا اور نہ ہی انہیں جنگ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
پروفیسر ہنری رینالڈز آسٹریلیا کے سب سے معزز تاریخ دانوں میں سے ایک ہیں اور جنگ کے ماہر ہیں۔ جب انہوں نے 1966 میں تاریخ پڑھانا شروع کی تو تاریخ کی کتابوں میں ایبوریجنل لوگوں کا تقریباً کوئی حوالہ نہیں تھا۔
"اس میں صرف دو بار ایبوریجنز کا ذکر کیا گیا، اور وہ بھی انتہایئی مختصر طورر پر، اور انڈیکس میں کوئی اندراج بھی نہیں تھا"، وہ کہتے ہیں۔
دی آسٹریلین وارز کا ٹریلر دیکھیں
پروفیسر رینالڈز کا کہنا ہے کہ یہ جزوی طور پر اس وجہ سے تھا کہ 20ویں صدی کے وسط میں فرنٹیئر وار کو مکمل پیمانے پر جنگ کے طور پر نہیں سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ تنازع گوریلا جنگ کے مترادف تھا۔
"نظریہ یہ تھا کہ یہ تنازعات بہت چھوٹے پیمانے پر جگہ جگہ بکھرے ہوئے انداز میں موجود تھے لہٰذا اسے ایک مکمل جبگ کی مانند تصور کرنا مشکل تھا۔ ان جنگوں میں باقاعدہ وردی کا استعمال نہیں تھا،فوج کی طرح کوئی مارچ کرنے والے سپاہی نہیں تھے… کلاسیکی معنوں میں کبھی بھی بڑی شکلوں اور لڑائیوں کا معاملہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود، یہ واضح طور پر جنگ کی ایک شکل تھی۔
آسٹریلوی فرنٹیئر وارز کے ایک اور ماہر مورخ ڈاکٹر نکولس کلیمینٹس اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ غلط فہمی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کا نتیجہ ہے، جس نے جنگ کو سمجھنے کا انداز بدل دیا۔
تاہم، اس قسم کی بڑے پیمانے پر جنگیں انسانیت کی تاریخ میں غیر معمولی ہیں۔
"وہ اسے اس وقت جنگ کے طور پر جانتے تھے۔ تمام نوآبادیاتی دستاویزات میں جنگ کا حوالہ دیا گیا تھا، لیکن 20ویں اور 21ویں صدی میں، ہم نے اس کی نظروں کو کھو دیا ہے۔ اور میرے خیال میں کچھ بنیادی سیاسی وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے بہت سے لوگ اسے جنگ کے طور پر نہیں پہچان سکتے،‘‘ ڈاکٹر کلیمینٹس بتاتے ہیں۔
یہ سیاسی وجوہات 'ٹیرا نولیس' اور برطانوی قانون کے اعلان کے درمیان ایک قانونی تضاد کی طرف واپس آتی ہیں۔ ریچل پرکنز کہتی ہیں کہ قبائلی لوگوں کو برطانوی تاج کی رعایا قرار دیا گیا تھا، اس طرح، سلطنت "سرکاری طور پر جنگ کا اعلان نہیں کر سکتی تھی... ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں،" ریچل پرکنز کہتی ہیں۔
"تاہم، برطانویوں نے فوجی طاقت کا استعمال اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کہ براعظم پر ان کا قبضہ کامیاب رہا،" وہ مزید کہتی ہیں۔
Frontier conflicts took place across the nation. Source: Supplied / Australian War Memorial Source: Supplied
مابو اور ٹیرا نولیس کی تبدیلی
آسٹریلین جنگوں کو صرف 1990 کی دہائی کے اوائل میں، جسے مابو کے تاریخی فیصلے کے نام سے جانا جاتا ہے، قانونی طور پر چیلنج کرنے اور اسے تبدیل کے بعد ہی تسلیم کیا جا سکا ہے۔
"اس وقت تک، یہ نظریہ رہا تھا کہ ابوریجینز زمین کے مالک نہیں تھے، اس لیے لڑائی زمین کے کنٹرول کے بارے میں نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ان کے پاس زمین کا کوئی قانونی حق نہیں تھا۔ 1992 اور اس فیصلے کے بعد، جنگ کی نوعیت کو بدلنا پڑا کیونکہ واضح طور پر یہ ان مسائل کے بارے میں تھا جن کے بارے میں جنگ ہمیشہ سے رہی ہے: علاقے پر کنٹرول،‘‘ پروفیسر رینالڈز کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کلیمینٹس کا کہنا ہے کہ برطانوی سلطنت کی آسٹریلیا میں مقامی زمین کی ملکیت کو تسلیم کرنے میں ناکامی ایک تاریخی بے ضابطگی ہے۔
"آسٹریلیا کی برطانوی نوآبادیات کے بالکل دل میں ایک ناقص بنیاد تھی۔ دیگر تمام ممالک کے برعکس جو برطانوی نوآبادیاتی تھے، انہوں نے یہاں آسٹریلیا میں مقامی مالکان کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے، کوئی معاہدے نہیں ہوئے، مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور آج تک ہم قانونی نقطہ نظر سے یہ سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کہ زمین کے لیے ان کے حقوق کیا ہیں۔"
اور مذاکرات کی ناکامی وحشیانہ خونریزی کا باعث بنی۔
نوآبادیاتی ریکارڈ اور آثار قدیمہ کے شواہد جو ماہرین کی ٹیموں کے ذریعے دریافت کیے گئے ہیں وہ تنازعہ کے خوفناک پیمانے کو ظاہر کرتے ہیں۔
صرف آسٹریلیا کے قومی عجائب گھر نے اپنے ذخیرے میں آبائی اجداد کی 400 سے زیادہ باقیات رکھی ہیں، جن میں سے بہت سے لوگوں کو پھانسی، سر قلم اور قتل عام کے ذریعے موت کے ثبوت دکھائے گئے ہیں۔
ریچل پرکنز کہتی ہیں کہ(ان سانحات کو) زندہ بچ جانے والوں کی اولادیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
بہت سارے ایبوریجنل لوگ تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ انڈیجنس لوگوں نے اپنے خاندانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی کہانیاں ہمارے حوالے کی ہیں۔ لہذا، میں کوئنز لینڈ میں اپنے لوگوں کے قتل عام کے بارے میں جان کر بڑی ہوئی ہوں اور میں اپنی عظیم دادی کی پرتشدد عصمت دری کے بارے میں جانتی ہوں۔ریچل پرکنز، فلمساز
Rachel Perkins - The Australian Wars Credit: Dylan River/Blackfella Films
بلیک وار
تسمانیہ کی سیاہ جنگ (1824-1831) آسٹریلیا کی تاریخ کا سب سے شدید سرحدی تنازعہ تھا۔
آسٹریلین جنگوں کی سیریز میں ریچل پرکنز کا کہنا ہے کہ "سیاہ جنگوں کے دوران کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام اور امن مشنوں میں مرنے والے تسمانیوں کی تعداد سے زیادہ تسمانی مارے گئے۔"
ڈاکٹر نکولس کلیمینٹس کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے تشدد کی سطح اتنی شدید تھی، نوآبادیاتی حکام اور آباد کار "خوف زدہ" تھے۔
"ابووریجنل مزاحمت حیران کن تھی۔ ہر کوئی نوآبادیاتی دنیا میں کسی ایسے شخص کو جانتا تھا جو ابیوریجنل لوگوں کے ہاتھوں مارا یا زخمی ہوا تھا، جس نے ان کے کھیتوں کو جلا دیا تھا۔ یہ بالکل خوفناک تھا،" وہ کہتے ہیں۔
درحقیقت سنجیدہ لوگ کالونی کو چھوڑنے پر غور کر رہے تھے۔ڈاکٹر نکولس کلیمنٹس، آسٹریلوی مورخ۔
لیکن یورپیوں نے غالب آ کر مقامی تسمانیوں کو تقریباً ختم کر دیا۔
جنسی تشدد کی وجہ سے تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔
"تشدد کا محرک، وہ میچ جس نے چنگاری کو روشن کیا، جنسی تشدد تھا،" ڈاکٹر کلیمینٹس نے مزید کہا۔
ابوریجنل خواتین کی نظامی عصمت دری اور اغوا اس قدر عام تھا کہ وہ کچھ ایبوریجنل قبیلوں کے زندہ رہنے کو جنسی زیادتی سے منسوب کرتا ہے۔
ڈاکٹر کلیمینٹس کا کہنا ہے کہ "صرف بالوں کی چوڑائی سے ہی آج ہمارے یہاں تک کہ تسمانیہ میں آبائی نسلیں بھی موجود ہیں، کیونکہ ان کا تقریباً مکمل صفایا کر دیا گیا تھا، زیادہ تر تشدد سے،" ڈاکٹر کلیمینٹس کہتے ہیں۔
Eddie Mabo with his legal team. Source: SBS Credit: National Museum of Australia
لوہے کو لوہے سے کاٹا گیا
آسٹریلیا کے بہت سے حصوں میں ابیوریجنل مزاحمت کو کچلنے کے لیے، نوآبادیات نے مقامی پولیس بنائی، جو کہ ایک تربیت یافتہ نیم فوجی دستہ تھا جو دہشت کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
"آپ نے مقامی فوجیوں کو بھرتی کیا، اور آپ نے انہیں فوجی قوت کے طور پر استعمال کیا۔ یہ بلاشبہ ابوریجنل مزاحمت کو توڑنے میں سب سے بڑی طاقت تھی،" پروفیسر رینالڈز کہتے ہیں۔
مردوں کو یونیفارم، بندوقیں اور گھوڑے دیے گئے۔ ڈاکٹر کلیمینٹس کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ سفید فام افسران نے ہیرا پھیری کی تھی، جنہوں نے انہیں اپنے روایتی ایبوریجنل علم اور جھاڑیوں کی مہارتوں کے لیے استعمال کیا۔
"صرف کوئینز لینڈ میں مقامی پولیس کے ذریعہ اٹھائے جانے والے افراد کی تعداد دسیوں ہزار میں تھی۔ میرے خیال میں اندازے 60 سے 80.000 تک زیادہ ہوتے ہیں، جو کہ بالکل حیران کن ہے، اور اس انداز میں ایک طرح سے اخلاقی طور پر انتہائی غلط اقدامات کا اخلاقی جواز فراہم کیا گیا" وہ کہتے ہیں۔
A nineteenth century engraving of an aboriginal camp - Marmocchi Source: Getty Source: Getty
"مجھے ایک ریکارڈنگ ملی جو میری دادی نے اپنی والدہ کے خاندان کے قتل عام کے بارے میں بتائی تھی، جسے میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا، اور میں اس جگہ پر کبھی نہیں گئی تھی جہاں یہ ہوا تھا، اور مجھے واقعتاً دستاویزی سیریز بنانے سے قبل کبھی پتہ نہیں چلا تھا کہ یہ کہاں ہوا ہے۔ " وہ کہتی ہیں۔
ڈاکٹر کلیمنٹس، جن کے پیش رو آباد کار تھے، کا خیال ہے کہ تمام آسٹریلینز کو شرمندگی کے جذبات پر قابو پانے اور ماضی کی ناانصافیوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
"چاہے کسی کے آباؤ اجداد ملوث تھے یا نہیں، ہم سب ابیوریجنل زمین کے وارث ہیں، جو چوری کی گئی تھی۔ کم از کم، ہم سب کو اس تاریخ کی نقاب کشائی کرنے، اس تاریخ کے مطابق سچ جاننے اور ایک مثبت مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔‘‘
Nowhere was resistance to white colonisers greater than from Tasmanian Aboriginal people, but within a generation only a few had survived the Black War. Source: The Conversation / Robert Dowling/National Gallery of Victoria via The Conversation Source: The Conversation / Robert Dowling/National Gallery of Victoria via The Conversation
اس تاریخ کو یاد کیوں نہیں کیا جاتا؟
پروفیسر رینالڈز کا خیال ہے کہ آسٹریلیا، ایک ایسی قوم جو اپنی بہت سی جنگی یادگاروں میں اپنے مرے ہوئے فوجیوں کا احترام کرتی ہے، اس قوم کو اس حقیقت کو کھلے عام تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ فرنٹیئر جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں میں انسانیت سوز مظالم کئے گئے تھے۔
"یہ کیسے ہے کہ ہم آسٹریلوی جنگوں سے اتفاق نہیں کر سکتے؟" وہ سوال کرتے ہیں.
"یہ معاملہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں نہیں ہے، وہ [آبائی امریکیوں] کے ساتھ تمام تنازعات کو سرکاری طور پر جنگوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ واضح طور پر نیوزی لینڈ میں ایسا نہیں ہے، ماوری جنگیں ہمیشہ سے تاریخ کا ایک اہم حصہ رہی ہیں۔
ریچل پرکنز کا کہنا ہے کہ اس بے ضابطگی کی وجہ بہت سادہ ہے۔
"آسٹریلیا دنیا کی ان منفرد جگہوں میں سے ایک ہے جسے نوآبادیات نے نہیں چھوڑا،" وہ کہتی ہیں۔
کالونسٹ یا ان کے ساتھ آنے والے آباد کار اقتدار میں رہے ہیں، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس سے قوم کے لیے ملک کا دفاع کرنے والوں کو تسلیم کرنا یا جشن منانا قدرے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ استعماری قابض قوت نے وہ مقام نہیں چھوڑا!Rachel Perkins, Filmmaker.
کے مرنے والے فوجیوں کو عزت دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اس کا استعمال ان جنگجوؤں تک وسیع کیا جانا چاہیے جس میں ایب اوریجنل افراد نے برطانوی سامراج کے خلاف اپنی سر زمین کا دفاع کیا‘‘
"میں بہت زیادہ فخر محسوس کروں گا اگر میرا ملک اپنے ماضی، اپنے پیشروؤں کی غلطیوں کو ہمت کے ساتھ تسلیم کرے، اور مستقبل میں ان غلطیوں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق درست کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم رہے … میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے ان مقام پر جائیں جہاں، زمین کی تزئین کے لئے، چاہے وہ یادگاروں کے ساتھ ہو یا دوہری ناموں کے ساتھ، ابوریجنلٹی موجود ہے، یہ موجود ہے، اس کا اعتراف ہے۔"
آسٹریلین واز ایس بی ایس آن ڈیمانڈ پر پانچ زبانوں میں نشر کرنے کے لیے دستیاب ہیں: آسان چینی، عربی، روایتی چینی، ویتنامی اور کورین۔ یہ سلسلہ نابینا یا بصارت سے محروم سامعین کے لیے آڈیو تفصیل/سب ٹائٹلز کے ساتھ بھی دستیاب ہے۔
This content was first published in September 2022.