آسٹریلیا میں حکام نے پناہ کی ویزہ درخواستوں کو جلد نمٹانے کے لیے 160 ملین ڈالرز فراہم کرنے اور جعلسازی کرنے والے گروہوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزیر داخلہ کلیئر اونیل نے متعلقہ اداروں کو ایسے مائیگریشن ایجنٹس اور انسانوں کے اسمگلرز کے خلاف سخت کارروائی کا کہا ہے جو نظام کے استحصال کرتے آرہے ہیں۔
یہ معاملہ ایسے وقت میں اٹھا ہے جب ایک تازہ انکوائیری نے امیگریشن نظام میں بہت سے گھمبیر خامیوں کی نشاندہی کی اور انکشاف کیا کہ منظم گروہ ، بشمول جنسی استحصال کے گروہ ، اس کا فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک اسمگلر Binjun Xie کو گزشتہ ماہ ہی ملک بدر کیا گیا تھا۔
وزیر کلیئر اونیل کے بقول: "یہ بھیانک لوگ، جو انسانیت کے خلاف سنگین جرایم کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہمارے امیگریشن نظام کا استحصال کر رہے ہیں، ہم ان کی تلاش میں ہیں اور انہیں گھیر لیں گے۔"
Xie سال 2014 میں اسٹوڈنٹ ویزہ پر آسٹریلیا آئے مگر کبھی پڑھنے لکھنے میں مصروف نہیں ہوے بلکہ متعدد ویزہ درخواستیں جمع کرواتے رہے اور یوں قریب ایک دہائی تک آسٹریلیا میں رہے۔
برسوں کا طویل انتظار
آسٹریلیا کے امیگریشن نظام پر یہ الزامات بھی رہے ہیں یہ انتہائی سست رفتاری سے اور کافی سخت شرایط کے تحت پناہ کی درخواستوں کو دیکھتا ہے۔
ملیبورن کے رہائشی عباس جعفری نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ وہ قریب چار برس کے مایوس کردینے والے انتظار سے گزرے اور بالآخر انہیں گزشتہ ماہ مستقل ویزہ مل گیا۔
"میرے لیے وہ دن رات انتھائی بھیانک تھے جب مجھے قانونی طور پر کوئی تحفظ، روزگار تلاش کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا"
آسٹریلیا میں برسراقتدار لیبر پارٹی کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق رواں برس فروری میں مختصر مدت والے مختلف ویزہ کے حامل ہزاروں افراد کو مستقل یا پرمننٹ ویزہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس فیصلے سے قریب اے بی سے کے مطابق 19 ہزار افراد ایک طویل غیر یقینی کی حامل زندگی کی مشکلات سے نجات ملی اور ان کے لیے مستقل سکونت کے دروازے کھل گئے۔
اس کے باوجود لاکھوں افراد اب بھی انتظار کے کرب سے گزر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم Refugee Legal کے مطابق قریب 55 ہزار افراد منتظر ہیں کہ ان کی درخواست کو دیکھا جائے اور 50 ہزار سے زیادہ مسترد شدہ درخواستوں کے لیے دائر کی گئی اپیلوں کا انتظار جھیل رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ریبیکا فرزام نے ایس بی ایس اردو کو بتایا کہ امیگریشن کے نظام میں اب بھی بہت اصلاحات کی ضرورت ہے۔
"لوگ سالوں سے ویزہ پروسس کے انتظار میں ہیں ۔ امیگریشن حکام ایک عرصے سے نوے دن کے اندر ویزہ کی درخواست نمٹانے کا ہدف مقرر کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ابتدائی طور پر پر لوگوں کی درخواستوں کو دو سے تین برس کا عرصہ لگ رہا ہے۔"
ویزہ درخواست دینے والوں میں ہزاروں افغان باشندے بھی شامل ہیں جو حالیہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پناہ کی تلاش میں ہیں۔
امیگریشن نظام کا استحصال
ریاست وکٹورکہ کی سابق پولیس کمشنر کرسٹین نکسن نے تازہ انکوایری میں انکشاف کیا کہ آسٹریلین امیگریشن نظام کا سنگین استحصال کیا جارہا ہے بشمول جنسی استحصال، انسانی اسمگلنگ اور منظم جرایم۔
یہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے معاملات کو درست کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اس کے لیے مجموعی طور پر 160 ملین ڈالرز کی رقم مختص کی جائے گی تاکہ اس قسم کی ویزہ درخواستوں کی بہتر جانچ کی جاسکے اور انہیں وقت پر نمٹایا جاسکے۔
امیگریشن کے وزیر اینڈریو جائیلز کے بقول اسٹرایک فورس ایسے منظم گروہوں کے خلاف کام کرے گی اور متعلقہ معاملات نمٹائے گی۔
ان کے بقول: "جانچ پڑتال کے لیے اضافی اختیارات سے اس اہم معاملے میں کافی فرق پڑے گا"۔
تازہ پیشرفت کے بعد امیگریشن ایجنٹس کی بھی کڑی جانچ کی جائے گی اور کسی گڑبڑ کرنے کی پاداش میں ان پر سخت مالی جرمانے عاید کیے جایں گے۔ اسی طرح بایومیٹرک کے اندراج اور جانچ پڑتال کے نظام کو بہتر کرنے کے مجموعی رقم میں سے 30 ملین مختص ہیں۔
وزیر داخلہ کلیر اونیل تمام مشکلات کی ذمہ داری سابقہ حکومت کی مبینہ ٖغفلت پر ڈال رہی ہیں۔ ان کے بقول: "یہ آسٹریلیا کی تاریخ کے بڑے فراڈ میں سے ایک ہے، جس میں پیٹر ڈٹن نے خود کو سرحدات کے قوی محافظ کے طور پر پیش کیا تاہم حقیقت میں امیگریشن حکام کے وسایل کم کیے اور یوں مجرمین کو موقع دیا کہ وہ نظام کا استحصال کر سکیں۔"
سابق وزیر داخلہ اور موجودہ حزب اختلاف رہنما پیٹر ڈٹن نے الزامات کو مسترد کیا اور اس معاملے کو موجودہ وقت میں اٹھانے پر سوالات اٹھائے۔ ان کے بقول: "ہم نے ریکارڈ تعداد میں ایسے مجرمین کی ویزہ درخواستیں مسترد کیں جو جنسی استحصال اور آسٹریلیا کے خلاف دیگر سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے۔"