کراچی کے قیدیوں کی احساسات، جذبات اور خیالات کی رنگ بھری پینٹنگز

Colorful paintings of the feelings, emotions and thoughts of the prisoners of Karachi

Colorful paintings of the feelings, emotions and thoughts of the prisoners of Karachi Source: Supplied / Ehsan Khan

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

کینوس میں رنگ اور ان رنگوں میں بھری زندگی ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں کراچی سینٹرل جیل کے ان قیدیوں کی جنہوں نے احساسات، جذبات اور خیالات کی رنگ بھری تشریح اپنی پینٹنگز کے ذریعے کی ہے۔


قدیم سینٹرل جیل میں کوئی پچیس برس، کسی کو عمر قید تو کوئی دس برس کی سزا کاٹ رہا ہے لیکن اس قید کے دوران بھی ان قیدیوں کی صلاحیتوں کو کوئی پابند سلاسل نہیں کر سکا، ان قیدیوں نے اپنے ہنر سے دنیا کو دکھا دیا کہ فن کسی کی میراث نہیں، کسی قیدی نے بپھرے سمندر میں زندگی کی امید دلائی، تو کسی نے مقبولِ عالم شاہکار مونا لیزا کو سندھ دھرتی کے پہناوے میں پینٹ کیا، تو کسی نے تھری ڈی پینٹ سے دیکھنے والوں کو حیرت کدے میں دھکیل دیا۔

سینٹرل جیل کراچی اور آرٹس کونسل آف پاکستان کے اشتراک سے قیدیوں کے بنائے فن پاروں کی تین روزہ نمائش کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں ان کے ہاتھوں سے بنے شاہکار عام افراد کے سامنے لائے گئے۔
The prisoners showed the world with their talent that art is not the legacy of anyone
The prisoners showed the world with their talent that art is not the legacy of anyone Source: Supplied / Ehsan Khan
گیارہ برس سے قید محمد اعجاز کہتے ہیں کہ جب جیل گیا تو وہاں کا ماحول پریشان کن تھا، وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھا اور تھری ڈی پینٹنگ بنانا شروع کیں، محمد اعجاز نے سندھ حکومت اور عدالت سے سزا ختم کرنے کی درخواست بھی کی۔

جیل میں دس برس سے قید االلہ ودھایو کہتے ہیں کہ مصوری شوقیہ شروع کی اور وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ اس میں مہارت حاصل کر لی، انہوں نے بتایا کہ جیل میں قیدیوں کو دیگر ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ مصوری بھی سکھائی جاتی ہے، جو نہ صرف ایک صحت مند سرگرمی ہے بلکہ قیدیوں کی اچھی آمدن کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔

حسنین سال 2007 سے جیل میں قید ہیں اور کہتے ہیں کہ مصوری ان کی تنہائی اور مشکلات کو بھلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، حسنین بتاتے ہیں قید میں سولہ سال بیت گئے اگر یہ کام نہ سیکھتا تو شاید پاگل ہو جاتا۔
A three-day exhibition of works of art made by prisoners was organized in collaboration with Central Jail Karachi and Arts Council of Pakistan.
A three-day exhibition of works of art made by prisoners was organized in collaboration with Central Jail Karachi and Arts Council of Pakistan. Source: Supplied / Ehsan Khan
اردو کے ممتاز ادیب، مصنف ، ڈرامہ نگار اور میزبان انور مقصود نے بھی اس تصویری نمائش کا دورہ کیا، قیدیوں کے کام کی تعریف کی اور اپنے روایتی انداز میں کہا کہ کچھ تخلیق کاروں کو بھی جیل بھیجنے کی ضرورت ہے، ہو سکتا ہے کہ اس سے ان کے کام میں بہتری آجائے، انور مقصود نے اعلیٰ حکام سے قیدیوں کے ہنر کو دیکھتے ان کی قید میں کمی کی درخواست بھی کی۔

سابق صوبائی وزیر سعید غنی فن پاروں کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہا ہماری کوشش رہی ہے کہ جیل کے اندر لوگوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ جرائم سے دور ہو جائیں۔

قیدیوں کے ہاتھوں بنے ان شاہکاروں کو دیکھنے کیلیے ایم کیو ایم کی ڈپٹی کنوینر نسرین جمیل، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان، سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن سمیت بڑی تعداد میں عام افراد آرٹس کونسل پہنچے اور ان قیدی آرٹسٹوں کی تخلیق اور رنگوں کے حسین امتزاج کی کھلے الفاظ میں تعریف کی۔

(رپورٹ: احسان خان)

شئیر