ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ
کسی کو غیر معیینہ مدت کے لئے امیگریشن کی حراست میں رکھنے کا طریقہ آسٹریلیا میں سنہ دو ہزار چار سے جاری حکومتی پالیسی کا حصہ رہا ہے، مگر اب ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی محصور فرد کی واپسی یا ملک بدری کا کوئی امکان نہ ہو تو اسے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنا غیر قانونی ہے۔
ہیومن رائٹس لا سنٹر کی قائم مقام مینیجنگ وکیل جاسمین لینگبین نے اس معاملے کو ماہرانہ رائے لینے کے لئے عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔
اس کیس کو میانمار سے تعلق رکھنے والے ایک روہنگیا شخص نے اٹھا یا تھا جو 2012 میں آسٹریلیا پہنچا تھا۔ اسے 2015 میں بچوں کے جنسی جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
اور حفاظتی ویزا کے لیے اس کی درخواست مسترد کر دی گئی، اسے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا گیا۔
پروفیسر مشیل فوسٹر میلبورن لاء سکول میں پیٹر میک ملن سینٹر آن سٹیٹ لیسنس کی ڈائریکٹر ہیں۔
اس وقت آسٹریلوی امیگریشن حراست میں ایک ہزار سے زائد افراد ہیں۔ان میں سے 31 بے وطن ہیں۔
سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 92 ایسے قیدی ہیں جنہیں ان کے آبائی ملک واپس نہیں بھیجا جا سکتا اور انہیں اس فیصلے کے بعد رہا کرنا پڑے گا۔
پروفیسر فوسٹر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے ہی رہائی پانے والے افراد پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے
شیڈو ہوم افیئرز کے وزیر جیمز پیٹرسن کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس ممکنہ فیصلے کا اندازہ لگانا چاہیے تھا، اور سزا یافتہ مجرموں کو کمیونٹی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پہلے ہی کارروائی کرنی چاہیے تھی۔
وزیر اعظم انتھونی البانی نے پیسیفک آئی لینڈز فورم کے دورے کے دوران اس مسئلے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا۔
لیکن اندرونِ ملک میں، کوئینز لینڈ کے سینیٹر مرے واٹ اور وزیر خارجہ پینی وونگ نے اس فیصلے سے پیدا ہونے والے خدشات دور کرنے کی کوشش کی۔
گرینز سینیٹر نک میکیم کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت جلد از جلد فیصلے پر عمل کرے۔
ہائی کورٹ آنے والے مہینوں میں اپنا فیصلہ جاری کرے گی۔
__________
ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: