فہمیدہ ریاض کو بچھڑے ایک برس ہو گیا۔ وہ ۲۸ جولائی انیس سو پینتالیس کو ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان سندھ منتقل ہوگیا اور انہوں نے سندھ میں ہی اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی تک کی ڈگری لی۔ اس کے بعد انیس سو سڑسٹھ میں وہ لندن چلی گئیں اور بی بی سی سے وابستہ ہوئیں۔ انیس سو سرسٹھ میں ان کا پہلا شعری مجموعہ پتھر کی زبان شائیع ہوا۔
انسانی حقوق کی تحریکوں کی سرگرم کارکن اور معروف خاتون کشور ناہید کا کہنا ہے کہ فہمیدہ ریاض نے ہر طرح کی پابندیوں اور خود ساختہ جلا وطنی کے باوجود اصولوں پر سودا نہیں کیا اور ان کا یہی کردار ان کی شاعری میں بھی بار بار جھلکتا ہے۔
فہمیدہ ریاض نے پاکستان کے بعد ہندوستان میں بڑھتی انتہا پسندی کے تناظر میں نطم "تم بھی بالکل ہم جیسے نکلے" لکھی جسے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں پزیرائی ملی۔ کشور ناہید کہتی ہیں کہ فہمیدہ نے اس نظم کو ہندو قوم پرستوں کے گڑھ میں سنا کرایک نئی روائت قائیم کی۔
فہمیدہ ریاض نے ۱۵ سال کی عمر میں ایک نظم کہی جو احمد ندیم قاسمی کے جریدے ’فنون‘ میں شائع ہوئی۔ سماج سے بغاوت اور ظلم کے خلاف جدوجہد فہمیدہ ریاض کے مزاج کا حصہ رہے۔فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورتوں کے حقوق اور ان کے مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے کشور ناہید کہتی ہیں کی فہمیدہ نے عورت کے فطری جذبات کی پوری طرح ترجمانی کی یہاں تک کہ انہوں نے عورت سے وابستہ جنسی رحجانات پر بھی لکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسی شاعرہ کے طور پر پہچانی گئیں جو جدید عہد میں مرد و زن کی برابری کے لئے آواز اٹھاتی رہیں۔کشور ناھید کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب کبھی خود ان کے بارے میں کچھ لکھا گیا تو فہمیدہ کا نام بھی ساتھ آیا اس لئے اب وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرتی ہیں ۔ وہ فہمیدہ ریاض کو انسانی حقوق کا بے لوث کارکن قرار دیتی ہیں۔
Source: Getty
Source: Facebook
فہمیدہ نے نہ کبھی کسی سے سفارش کروائی نہ کوئی عہدہ طلب کیا بلکہ خود کو ملنے والے اعزاز کو بھی حبیب جالب کے نام منسوب کیا۔
فہمیدہ ریاض پر ضیا الحق کے دور میں درجنوں مقدمے قائم ہوئے جس کے بعد انہوں نے خودساختہ جلاوطنی کے تحت ہندوستان میں رہائش اختیار کی اور انیس سو اٹھاسی میں ضیا الحق کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئیں۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے نثر اور دیگر تراجم میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔
کشور ناہید نے ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض کی شاعری کو ان کی مزاحمتی جدوجہد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب فہمیدہ وصیت پر لکھتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ "مجھے دفن کرتے وقت یہ مت کہنا کہ یہ عورت نیک تھی" اور اپنے بیٹے پر " تم کبیر" جیسا مرثیہ کہتی ہے ۔
فہمیدہ سے پہلےاردو ادب میں کسی خاتون شاعرہ کوعورتوں کے حقوق اور جبر کے خلاف اس بیباکی سے لکھنے کی جرات نہیں ہوئی اور یہی جرات جابروں کو کبھی اچھی نہیں لگی۔
فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز اور مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کے کئی تراجم بھی کئے۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے نثری تخلیقات پر بھی کام کرنا شروع کردیا تھا۔ فہمیدہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہیں۔
بہ خانہ آب و گل، کھلے دریچے سے، پتھر کی زبان، سب لعل وگہر، آدمی کی زندگی، بدن دریدہ اور خطِ مرکوز ان کی اہم تصانیف ہیں۔ تئیس مارچ سن دو ہزار دس میں حکومتِ پاکستان نے فہمیدہ ریاض کو ستارہ امتیاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ حکومتِ سندھ نے شیخ ایاز ایوارڈ اور ادب میں مزاحمت کے اعتراف کے طور پر انہیں ہیمے ہیلمن ایوارڈ سے بھی نوازا ۔
کیا نئی نسل کی خواتین شاعرہ میں کوئی نام فہمیدہ کے مشن کو آگے بڑھانے والوں کی فہرست میں شامل ہے، اس سوال کے جواب میں کشور ناہید نسیم انجم بھٹی اورعطیہ داود کا نام لیتی ہیں مگر وہ ان سب میں عشرت آفرین کے کام کو ذیادہ سراہتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مزاحمتی شاعری کا پیغام عام آدمی تک پہنچانے میں کئی رکاوٹیں حائیل ہیں۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ذہنوں کی کشادگی کو جرم سمجھا جا تا ہے لوگ نئی بات سمجھنے اور عقلی دلائیل سے انکاری ہیں اور اسی لئے آج بھی ہمارے معاشرے پر رجعت پسندوں کا تسلط ہے۔
معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی برسی اب ہر سال آتی رہے گی ۔ فہمیدہ ریاض کی مشہور نظم ’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘ خطے کے دوسرے ممالک میں بڑھتی شدت پسندی پر ایک کاری وار تھا مگر وہ خود بھی اس بے حسِ معاشرے سے بالکل مختلف نکلیں۔ فہمیدہ ریاض تم ہم جیسی نہیں نکلیں ۔۲۱ نومبر کو ان کی پہلی برسی پر ان کی شاعری اور ان کی جدوجہد کو یاد کیا جا رہا مگر کیا صرف مزاحمتی شاعری سے معاشرتی رویے بدلنے میں مدد ملے گی یا فہمیدہ ریاض جیسے خواب دیکھنے والوں کوروشنی دیکھنے کے لئےاپنی ہی برسیوں کا انتظار کرنا ہوگا؟
فہمیدہ ریاض کی مشہور نظم ۔ تم بالکل ہم جیسے نکلے جس نے بھارت میں بھی بڑی مقبولیت حاصل کی
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کرو گے فتوے جاری
ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا
دانتوں آ جائے گا پسینہ
جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
اب جاہل پن کے گن گانا
آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آ جائے گا
الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ دوجا من میں آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ
بارم بار یہی دہراؤ
کیسا ویر مہان تھا بھارت
کتنا عالی شان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا