کوئنزلینڈ کے رہائشی جون نے ایس بی ایس ایگزامینز کو بتایا کہ انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد سے امیگریشن اور نقل مکانی کے بارے میں اپنے خیالات کو تبدیل کرنے کے لئے مشکل کا سامنا کیا۔
ہاوءسنگ کرائسس کے دوران دیہی علاقے میں رہتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ وہ کرائے کا گھر حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہی تاہم ان کے سامنے وہ لوگ ہیں جو اپنے ورکنگ ویزہ ہالیڈیز میں توسیع کے خواہاں ہیں۔
"اگر آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ آپ ان افراد سے کرائے کا مکان حاصل کرنے کے لئےمقابلہ کر سکیں تو قسمت بھی آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا
"میں (اندرونی) شہر میں پلا بڑھا، اور ہمیشہ کثیر الثقافتی کے تمام فوائد سے آگاہ تھا لیکن،اب مجھے لگتا ہے کہ اب میرے احساسات تبدیل ہو رہے ہیں۔"
جون وہ واحد شخص نہیں ہیں ، جو ایسا سوچ رہے ہیں
اسکینلن انسٹیٹوٹ کے سماجی ہم آہنگی انڈیکس میں یہ بات سامنے آٗی ہے کہ مالی طور پر جدوجہد کرنے والے لوگ زیادہ تر پیمائشی میٹرکس پر کم اسکور کرتے ہیں۔
سی ای او اینتھیا ہینکک نے کہا کہ "وہ اکثر خود کو اپنے ارد گرد کا حصہ محسوس نہیں کرتے، حکومت پر کم اعتماد ظاہر کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں، وہ عام طور پر دوسرے لوگوں پر تھوڑا سا کم اعتماد کرتے ہیں، اور اکثر دوسروں سے بالکل الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔"
"وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آسٹریلیا میں زندگی بہتر ہونے والی نہیں ہے، اور وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ تارکین وطن کا تنوع شاید آسٹریلیا کو مضبوط نہیں بناتا۔"
سڈنی کے ناردرن بیچز میں کمیونٹی لیڈر، راچیل لیہ جیکسن مالی دباؤ کا سامنا کرنے والوں اور دولت مندوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو دیکھ کر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
"یہاں بہت زیادہ غربت ہے اور بہت زیادہ ضرورت اور لوگوں کے درمیان رابطہ منقطع ہے۔ لوگ اکیلے ہیں، اور میں اس تنہائی کو جانتی ہوں،‘‘ اس نے کہا۔
"بالآخر یہ بات غور طلب ہے کہ کمینونٹی سے جڑ کر رہنا ہی اصل طاقت ہے اس لئے ہمیں یاک ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔"
ایس بی ایس ایگزامنز کی اس قسط میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضروریات زندگی کا بڑھتا دباؤ ہماری کمینونٹیز میں کیسے تقسیم کا باعث بن رہا ہے