تقریباً 9,000 پناہ کے متلاشی ایسے ہیں جو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل آسٹریلیا پہنچے تھے اور اپنی پناہ کی درخواستوں پر کسی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ اتحادی حکومت کے دور میں بنائے گئے فاسٹ ٹریک' نظام میں پھنس کر رہ جانے والے جب آسٹریلیا آئے تو ان میں سے ہزاروں بچے تھے۔ اب وہ نوجوان بالغ ہیں جن پرچھ ماہ کے بریجنگ ویزا کی پابندی ہے،یہ افراد اس خوف کے ساتھ جی رہے ہیں کہ انہیں اس ملک سے ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے جسے وہ اب گھر کہتے ہیں۔
کراس بینچرز اور پناہ گزینوں کے وکلاء کا ایک گروپ امیگریشن منسٹر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ دہائیوں پر محیط تاخیری نظام کو ختم کریں اور ان تارکین وطن کو مستقل حیثیت کا تعین کریں۔
ان کے لیے عمر کا یہ دور غیر یقینی کا دور ہے۔مگر آسٹریلیا میں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔ تحفظ کی کمی کی وجہ سےان کی غیر یقینی اور بڑھ گئی ہے،
۲۰۰۹ میں سات سال کی عمر میں، وہ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ خانہ جنگی کے بعد کے سالوں میں ظلم و ستم کے خوف سے اپنے آبائی ملک سری لنکا سے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئیں۔
اس دوران وہ اپنے والد کو وہاں چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔
بارہ سال بعد آ، ان کے والد جگر کے کینسر کی وجہ سے سری لنکا میں انتقال کر گئے مگر آسٹریلیا میں ان کے خاندان پر ویزا کی سخت شرائط کی وجہ سے وہ ان سے نہیں مل سکیں۔
وہ تقریباً 9,000 پناہ کے متلاشیوں میں سے ایک ہیں جو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل آسٹریلیا پہنچے تھے لیکن ایک ایسے نظام میں پھنس گئے ہیں جو ان کی پناہ گزینوں کی درخواستوں کو "تیز رفتاری سے ٹریک کرنے" کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
یہ ایک اسکیم تھی جو اس وقت کی مخلوط حکومت نے 2014 میں 31,000 لوگوں کے لیے قائم کی تھی جو 2012 سے پہلے کشتی کے ذریعے پہنچے تھے،ان کی پروسیسنگ مکمل ہونے کے باوجود ان متاثرہ افراد کو عارضی ویزوں پر رکھا گیا تھا ۔
حزب اختلاف میں رہتے ہوئے، لیبر پارٹی اس نظام پر تنقید کرتی رہی ے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے، یہ افراد اپنے حالات کے ٹھیک ہونے کے منتظر ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد لیبر حکومت بے یقینی کے شکار ان افراد کے لیے کوئی حل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
تقریباً 19,000 افراد کو پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن پروگرام میں ایک اہم بیک لاگ باقی ہے۔
پناہ کے متلاشی افراد کے ریسورس سینٹر کے جانا فاویرو کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو ناقابل یقین حد تک غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
آزاد ایم پی اور آزاد سینیٹرسمیت متعدد کراس بینچرز حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے دہائیوں سے جاری انتظار کو ختم کرے۔
امیگریشن منسٹر نے S-B-S نیوز کو انٹرویو دینے سے انکار کر دیا لیکن ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ "حکومت ہر تحفظ کے دعوے کو مؤثر طریقے سے جانچنے کے لیے پرعزم ہے" اور یہ کہ "تحفظ کے نظام اور بیک لاگز کو ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔"
لیکن جب یہ وقت گزر جاتا ہے، بہت سے تارکین وطن جیسے پیوم کنیشن، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ آسٹریلیا میں گزارا ہے، انہیں ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور ہونے کے امکان سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔