آج آپ کی ملاقات کرواتے ہیں ایک ایسی خاتون سے جس کی بینائی تو نہیں لیکن وہ اندھیروں میں روشنی پیدا کررہی ہے۔ جس نے اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا اور علم کی ایک ایسی شمع روشن کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
ایس بی ایس اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انیتا ولیمسن نے اپنی تعلیمی ، پیشہ وارانہ کیریئر اور اس سفر کے دوران جو مشکلات اور رکاوٹیں انھوں نے عبور کی ان پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
ڈاکٹر انیتا ولیمسن کہتی ہیں والدین پیدائشی نابینا پن کی وجہ سے پریشان ہوگئے تھے ، اقلیتی کمیونٹی سے تعلق بھی پریشان میں اضافہ کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود والدین نے بنیادی تعلیم سے لے لر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے تک بھرپور ساتھ دیا، انتیا ولیمسن کہتی ہیں معاشرے میں اپنی محنت سے جگہ بنائی، مجھ میں نہ تو کوئی کمی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی وجہ جو میری ترقی کی راہ میں رکاؤٹ بنے۔

انیتا ولیمسن کہتی ہیں جب بھی کبھی ہمت ٹوٹتی تو پی ایچ ڈی سپروائزز حوصلہ افزائی کرتیں، اور کہتی کہ ’تم یہ کر سکتی ہو‘۔
ڈاکٹر انیتا ولیمسن کے مطابق بصارت سے محروم افراد معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرناچاہتے ہیں لیکن بدقستمی سے ان کے لیے یہاں مواقع موجود نہیں ہیں،انیتا کے مطابق بصارت سے محروم افراد میں بنیادی معلومات کی کمی ہے، مجھے بھی دوران تعلیم کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں ایسے افراد کیلیے سیکھنے اور سیکھانے کے عمل کا فقدان ہے،انیتا ولیمسن کی خواہش ہے کہ وہ نابینا افراد کیلیے کچھ ایسے اقدامات کریں تا کہ انھیں زندگی گزارنے میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انیتا ولیمسن نے شکوہ کیا کہ بصارت سے محروم افراد کیلیے حکومتی سطح پر جاب کوٹہ تو موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا حکومت سے درخواست ہے کہ اس پراسیس کو آسان بنائے۔
(رپورٹ: احسان خان)