ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس ؟ امریکی انتخابی دوڑ کی گرما گرمی عروج پر

2024 Democratic National Convention

Former First Lady Michelle Obama delivers remarks at the 2024 Democratic National Convention in Chicago, Illinois Source: AAP / Annabelle Gordon - CNP/Annabelle Gordon - CNP/Sipa USA

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

امریکا میں صدارتی انتخابات کی دوڑ میں گرماگرمی عروج پر ہے جہاں ڈیموکریٹ پارٹی نے شکاگو میں منعقدہ اپنے عام اجلاس میں نومبر کے انتخابی معرکے میں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔


سال 1832 سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان اس طرز کے عام اجلاس میں جمع ہوکر اپنے صدارتی امیدواروں کی حمایت کا اعلان کرتے آرہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے سلسلے سے جڑے اجلاس کا آغاز صدر جو بائیڈن کی جانب سے ہوا جنہوں نے مشعل اپنی نائب صدر کمالا ہیرس کو منتقل کی جو آنے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔

81 سالہ جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ 21 جولائی کو اعلان کیا کہ وہ انتخابی معرکے کی دوڑ سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کمالا ہیرس پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کو بہتر مستقبل کی جانب گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

کملا ہیرس بذات خود ان دنوں ملواکے کے علاقے میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھیں جہاں ان کے نائب صدارتی امیدوار ٹم وولز بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے اس کنوینشن میں شرکت کو بھی یقینی بنایا اور اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کا عزم دہرایا۔

اس کنویشن کے دوران شکاگو شہر ہی میں فلسطین کے ہزاروں حامیوں کو اسرائیلی قونصلیٹ جنرل کے باہر سے پولیس نے حراست میں لیا۔

امریکا میں تازہ عوامی جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حملوں کے خلاف ہیں، جن میں فلسطینیوں کے مطابق 40 ہزار سے زائد افراد اپنی جانیں گنوان بیٹھے ہیں۔

اسی کنویشن میں آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر تباہ کن حملے کو اختتام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

کنوینش کے باہر مظاہرین نے امریکی انتظامیہ کی اسرائیل کی حمایت پر بھی سوال اٹھایا۔

وہ کمالا ہیرس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت ختم کر دیں ورنہ ان کے سپورٹ بیس کا کچھ حصہ کھو جانے کا خطرہ ہے۔

71 سالہ جنگ مخالف کارکن میڈیی بینجمن کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر محترمہ ہیرس کی بیان بازی کی تبدیلی کو سراہتی ہیں لیکن حقیقی کارروائی دیکھنا چاہتی ہیں۔

سابق امریکی صدر براک اوباما بھی اپنے سابق نائب صدر جو بائیڈن کی تعریف کرتے ہوئے اپنے آبائی شہر میں اس کنویشن کے دوران اسٹیج پر واپس آئے۔

انہوں نے دیرینہ ڈیموکریٹک اتحادی کملا ہیرس کی یہ کہتے ہوئے بھی تعریفکی کہ وہ ایک زیادہ پر امید اور مترقی امریکہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سابق خاتون اول مشیل اوباما کا کہنا تھا کہ کمالا ہیرس صدارتی عہدہ حاصل کرنے کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ اہل افراد میں سے ایک ہیں۔ امریکا میں ووٹنگ لازمی نہیں ہے جیسا کہ آسٹریلیا میں ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر، جو کہ یو ایس میں ایک آزاد تجزیاتی مرکز ہے، کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کئی ملین رجسٹرڈ ووٹرز نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا، جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہوئی۔ مشیل اوباما امریکیوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور آئندہ انتخابات میں اپنا جمہوری حق استعمال کریں۔ 10 ستمبر کو کملا ہیرس ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنا پہلا ٹیلیویژن مباحثہ کریں گی۔

شئیر