Key Points
- حکومت تحریک انصاف مذاکرات کا تیسرا دور
- 190 ملین پاونڈ کیس کا فیصلہ موخر کیوں؟
- قومی اسمبلی، سینیٹ اجلاس اپوزیشن کا احتجاج
- فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کا کیس
حکومت اور تحریک انصاف ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آگئے۔ حکومت پی ٹی آئی کمیٹیوں کے درمیاں تعطل کا شکار مذاکراتی عمل بحال ہوگیا۔ دونوں اطراف کی مذاکراتی کمیٹیوں کا تیسرا اجلاس جمعرات 16 جنوری کو ہوگا۔ تحریک انصاف مذاکرات میں اپنے تحریری مطالبات پیش کرے گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹیوں کا تیسرا اجلاس 16 جنوری کو دن ڈیڑھ بجے پارلیمنٹ ہاوس میں طلب کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں 31 جنوری کی ڈیڈلائن میں توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی 31 جنوری کو تحلیل نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کا ردعمل دینے میں وقت لگے گا۔ یہ کوئی خط نہیں جسکا فوری جواب دیدیا جائے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 23 دسمبر کی پہلی میٹنگ میں اپنے مطالبات تحریری شکل میں لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن تین ہفتے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کی کوئی تحریر ہمارے سامنے نہیں آئی جب ان کے مطالبات ہمارے سامنے آئیں گے تو ہماری کمیٹی میں شامل تمام جماعتیں اپنی اپنی قیادت سے مشورہ کریں گی پھر ہم سب آپس میں مل بیٹھیں گے۔ اپنے قانون دانوں سے مشاورت کریں گے اور پھر پی ٹی آئی کو اپنا رد عمل دیں گے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مذاکرات میں دو ہی مطالبات ہیں۔ صحافیوں کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کیلئے پرامید ہیں۔ وزیردفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کیلئے پہلے تحریک انصاف کو سیز فائر کرنا ہوگا۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشرہ بی بی کیخلاف 190 ملین پاونڈ ریفرنس کا فیصلہ تیسری بار موخر کردیا گیا۔ عدالت نے 190 ملین پاونڈ کیس کے فیصلے کی نئی تاریخ 17 جنوری مقرر کی ہے۔ احتساب عدالت کی جانب سے سوموار 13 جنوری کو 190 ملین پاونڈ کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ فیصلہ سننے کیلئے مقامی اور بین القوامی میڈیا کے نمائندے بڑی تعداد میں اڈیالہ جیل کے باہر پہنچے۔
Source: Supplied / Asghar Hayat
بعد ازاں بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی بہنوں اور وکلا کی ٹیم نے اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گیارہ بجے کے مقررہ وقت پر پہنچ چکے تھے ۔ لیکن جج صاحب مقررہ وقت سے قبل ہی فیصلہ سنائے بغیر روانہ ہوگئے۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سیلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ کیس کے فیصلے میں تاخیر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی ڈیل ہوری ہے۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ بانی تحریک انصاف اور وکلا کے پیش نہ ہونے سے فیصلہ تاخیر کا شکار ہوا۔ تحریک انصاف التوا چاہ رہی ہے۔ واضح رہے کہ 190 ملین پاونڈ کیس کا فیصلہ گزشتہ ماہ کی 18 تاریخ کو محفوظ کیا گیا تھا۔ فیصلہ سنانے کی تاریخ پہلے 23 دسمبر مقرر کی گئی تھی۔ جسے بعد میں 6 جنوری اور پھر 13 جنوری تک موخر کردیا گیا تھا۔عمران خان اور بشرہ بی بی کیخلاف 190 ملین پاونڈ کیس ایک سال تک اڈیالہ جیل میں چلتا رہا۔ کیس میں نیب نے نیب نے 35 گواہان کے بیانات قلمند کروائے جبکہ وکلا صفائی نے تمام گواہان پر جرح مکمل کی۔
Source: Supplied / Asghar Hayat
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ اجلاس کے دوران بھی تحریک انصاف نے سینیٹ رکن اعجاز چوہدری کے پروڈیکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود پیش نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا۔ حکومتی ارکان کی تقریر کے دوران اپوزیشن سینیٹرز نے نشستوں سے کھڑے ہوکر نعرے بازی کی اور سینیٹ اجلاس سے واک آوٹ کیا۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اعجاز چوہدری کے پروڈیکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ پنجاب حکومت نے پروڈیکشن آرڈز کو سنجیدہ نہیں لیا۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے یہ گڑھے خود ہی کھودے ہوئے ہیں۔ جب ہمارے ارکان کے پروڈیکشن آرڈر پر عملدرآمد نہیں ہوتا تھا تو یہ ڈیسک بجاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔
Source: Supplied / Asghar Hayat
منگل کے روز دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آئینی بینچ کے سامنے دلائل جاری رکھے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ لوگ بغیر اسلحے کے کیسے کور کمانڈر ہاوس کے اندر پہنچ گئے؟ کیا یہ سیکورٹی بریچ نہیں تھا۔جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں کن سویلینز کا کن حالات کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث بولے کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا۔ دوران سماعت خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں کسی دفاعی ادارے میں جاکر بندوق چوری کرلوں تو اس کا ٹرائل بھی وہیں پر ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پھر یہ بتائیں بندوق چوری کی ایف آئی آر کہاں ہو گی؟ 9 مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جارہے تھے، انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہاں جا رہے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام لوگوں کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں چلا۔ ملزمان سے تفتیش کی تفصیلات عدالت کے سامنے رکھی جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کتنا پھیلایا جاسکتا ہے۔ انسداد دہشتگردی بھی سخت قانون ہے۔ جس میں سزائیں زیادہ ہیں اور ریاعت بھی نہیں ملتی ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی ہے۔وزارت دفاع کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
(رپورٹ: اصغرحیات)
___________________________________________
- یا ڈیوائیسز پر انسٹال کیجئے پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے: