قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی، جس کے بعد وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔ اسپیکر اسد قیصر نے ایوان میں آکر اراکین سے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایاز صادق سے کہا کہ وہ پینل آف چیئرمین کے رکن کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھیں۔ جس کے بعد ان کی صدارت میں اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی گئی۔ اس دوران ایوان میں حکومتی بینچزر خالی ہوگئیں اور حکومتی ارکان ایوان سے چلے گئے۔ جس کے بعد ووٹنگ ہونے پر تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی۔
وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے موقع پر قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان ملک پر غیر جمہوری بوجھ تھے، شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ملک کو دوبارہ تعمیر کرے گا، جبکہ تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان کو آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی سزا دی گئی.
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر قام سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک اعتماد کو مسترد کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت کسی بھی رکنِ قومی اسمبلی کو عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالنے سے نہ روکے اور نہ ہی کسی قسم کی مداخلت کرے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بیرونی مداخلت کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈ کو اپنے لیڈر کے بیانئے کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے تاریخی قرار دیا اور ٹوئیٹر صارف عبدل قادر کا ٹوئیٹ شئیر کیا۔
عمران خان اب کیا کر سکتے ہیں؟
یہ جاننے کے لئے سابق وزیراعظم عمران خان کی اب اپوزیشن میں رہ کر کیا حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں ان کے کچھ حالیہ بیانات پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ۳ اپریل کو وزیراعظم عمران خان نے عوام سے براہ راست گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے غداری ہورہی ہے جس کے خلاف اسلام آباد ریڈزون کے باہر پرامن احتجاج کرینگے، اور وہ نماز عشا کے بعد خود بھی اس احتجاج میں شریک ہونگے۔ اس سے پہلے کچھ خطابات میں وہ اپنے مخالفین کو بتاتے رہے ہیں کہ وہ اگر نہ بھی کہیں تب بھی عوام گھیراؤ کریں گے اور منحرفیین کے چہرے پہچاننے اور ان کا سوشل بائیکاٹ کرنے جیسی کی باتیں کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے قوم سے اپنے خطاب میں بھی برطانیہ اور دیگر ممالک میں عراق جنگ کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہرے کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام سے پُر امن احتجاج کی اپیل کی تھی۔ خود ان کے وزرا بھی پچھلے کچھ دنوں میں عوام سے گھروں سے نکلنے کی اپیلیں کرتے رہے ہیں۔ اور وزیر اعظم اور ان کے اراکین ستائیس مارچ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں دس لاکھ افراد کو اسلام آباد میں جمع ہونے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے جنوری ۲۰۰۳ میں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے سوال و جواب کے سیشن 'آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ ' میں شہریوں کی ٹیلی فون کالز کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان دیگر قومی معاملات پر بات کرتے ہوئے بظاہر اپوزیشن جماعتوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب تک اپنے دفتر میں خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں، لیکن اگر وہ سڑکوں پر نکل آئے تو حزبِ اختلاف کو بقول ان کے چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اسی خطاب میں کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو زیادہ خطرناک ہو جائیں گے اور سڑکوں پر آکر اپوزیشن جماعتوں کے لیے زیادہ خطرے کا باعث بنیں گے۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ عمران خان اپنے دورِ حکمرانی سے سبق لیتے ہوئے سب کے ساتھ مل کر چلنے کی راہ اپناتے ہیں یا اپنا حالیہ بیانیہ جاری رکھتے ہوئے مزید جارح بن کر سامنے آتے ہیں۔
ایس بی ایس اردو سے بات کرتے ہوئے آسٹریلیا کے دورے پر اس وقت موجود پاکستانیوں نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ تمام سیاست قانونی اورآئینی حدوں میں رہ کر کی جاتی رہے گی۔ اور ملک کو انارکی اور انتشار سے بچانے کے لئے دونوں جانب سے پچھلی جذباتی بحثوں کو پیچھے چھوڑ کر ملکی خوشحالی کے لئے مثبت اور مصالحتی فیصلے کئے جایئں گے۔
پوڈکاسٹ کو سننے کے لئے سب سے اوپر دئیے ہوئے اسپیکر آئیکون پر کلک کیجئے یا نیچے دئے اپنے پسندیدہ پوڈ کاسٹ پلیٹ فارم سے سنئے
S, ,- یا کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔
- اردو پروگرام ہر بدھ اور اتوار کو شام 6 بجے (آسٹریلین شرقی ٹائیم) پر نشر کیا جاتا ہے