لوگوں کا کام تو باتیں کرنا ہے لیکن محنت سے گھبرانا نہیں چاہئے نہ ہی کسی بھی کام سے خوفزدہ ہونا چاہئے ۔یہ الفاط ہیں اقراء نسیم کے جو میلبرن میں سائیکل پر اوبر ایٹس چلاتی رہی ہیں ۔
- سب سےزیادہ مشکل بارش میں سائیکل چلانا ہوتا تھا اور ایک مرتبہ میرا بائیک سلپ ہونے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ بھی ہوا۔
- لوگوں کے گھورنے کی وجہ سے اکثر میں فوڈ چینز کی پارکنگ میں جانے سے گریز کرتی تھی ۔
- جس چیز سے آپ سب سے زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں ، وہی چیز آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
اقراء نسیم پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارے نسٹ سے سول انجنئیر گریجویٹ ہیں ۔ اقراء نے پاکستان میں بطور پلاننگ انجنئیر کام کیا ۔ اقراء روا ں سال مارچ میں آسٹریلیا آئیں تو فورا ہی پیناڈیمک کے باعث انہیں اپنے لئے نوکری ڈھوڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اقراء کے مطابق جب میری تمام جمع کی ہوئی رقم ختم ہوگئی تو میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور پھر اپنا اوبر ایٹس کا اکاونٹ بنا لیا ۔ اکاونٹ بنانے کے بعد انہوں نے الیکٹریک بائیک کرائے پر حاصل کی اور اپنی نوکری کا آغاز کر دیا ۔
اس دوران خود کو پیش آنے والی مشکلات اور اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے اقراء کا کہنا تھا کہ لوگ تو باتیں کرتے ہی ہیں لیکن مجھے حلال رزق کمانا تھا ۔اقراء کہتی ہیں کہ صحت کے لحاظ سے مجھے سائیکل چلانے مین مشکل ہوتی تھی خاص کر پہاڑی علاقوں میں سائیکل چلانا مشکل ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بارش اور شدید سردی بھی کئی دفعہ راہ میں حائل ہوئی اس کے علاوہ رمضان کے دوران سائیکل پر ڈیلیوریز بھی ہمت کا کام تھا ۔ ان مشکلات کے باوجود اقراء گھبرائے بغیر ڈیلیوریز کرتی رہیں جبکہ اب بھی وہ مستقبل میں وقت پڑنے پر اوبر چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس کے لئے ڈرائیونگ بھی سیکھ رہی ہیں ۔
اقراء کہتی ہیں موسم کی خرابی تو قدرت کی جانب سے تھا لیکن زیادہ بڑا چیلنج اپنی ہی کمیونٹی کے کچھ افراد کی باتیں برداشت کرنا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ میری جاب کے دوران کچھ لوگوں نے گھورا تو کچھ نے مشورہ دیا کہ میں چہرہ چھپا کر یہ جاب کروں ۔ جبکہ ایک صاحب نے کہا کہ کیسا لگ رہا ہے انجنئیر ہوکر آسٹریلیا میں سائیکل پر اوبر چلانا ۔ لیکن اقراء نے کہا کہ جہاں منفی ردعمل تھا کچھ لوگوں کا سراہانا میری ہمت بڑھاتا رہا ۔ اقراء نے بتایا کہ اس پورے وقت میں رزق حلال کی طلب اس جاب کے لئےمیرا سب سے بڑا محرک تھا ۔
اوبر ایٹس کے مثبت پہلو کا ذکر کرتے ہوئے اقراء کہتی ہیں کہ مختلف ثقافت کے لوگوں سے ملنا اور میلبرن کو نئے انداز سے دیکھنا ایک اچھا تجربہ تھا ۔ اقراء دن میں دس گھنٹے تک اوبر پر کام کرتی تھیں اور اس دوران میلبرن کے مختلف حصوں میں گھومتی تھیں ۔ اس وقت اقراء یارا ٹرام سینیٹائزیشن پروجیکٹ سے وابستہ ہیں اور اپنی اس جاب سے بھی مطمئین ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے مقامی افراد اور ان کی کام سے محبت نے انہیں بہت متاثر کیا ہے ۔ پاکستانی خواتین کو اپنے پیغام میں اقراء کا کہنا ہے کہ اپنے اندر کے خوف کی وجہ سے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں ۔ اقرا ء کہتی ہیں کہ جس کام سے انسان سب سے زیادہ ڈرتا ہے اس کی کامیابی کے مواقع بھی وہیں میسر آتے ہیں ۔