اونچی لہروں سے کھیلنے والے خطروں کے کھلاڑی

WhatsApp Image 2024-10-30 at 08.47.32.jpeg

Source: Supplied / Ehsan Khan

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

دنیا بھر میں سرفنگ کے کھیل کیلیے عالمی معیار کے سرفنگ بورڈز، کاسٹیومز اور ماہر کوچز دستیاب ہوتے ہیں تاہم پاکستان میں سرفرز کیلیے نہ تو معیاری سرفنگ بورڈ دستیاب ہیں نہ کوچز اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہیں اس کے باوجود پاکستان میں یہ کھیل ہر گرزتے دن کے ساتھ مقبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔


چھوٹی سے لکڑی کے بورڈ کے سہارے سمندر کی تند و تیز لہروں پر اپنا توازن برقرار رکھنا ایک فن ہے لہروں پر سوار ہو کر گہرائی سے خشکی کی جانب بڑھنا بظاہر تو آسان سا کھیل لگتا ہے لیکن کسی بھی سرفر کیلیے ان لہروں سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

کراچی (پاکستان) کی ساحلی پٹی پر نوجوان اب اس کھیل کو کھیلنے کیلیے گروپس کی شکل میں آتے ہیں اور بلند و بالا لہروں پر بغیر کسی کوچ ، حفاظتی اقدام کے سرفنگ کرتے اور اپنا شوق مکمل کرتے نظر آتے ہیں۔

ماہی گیروں کے یہ بچے بچپن سے ہی ان لہروں سے لڑنے کا ہنر سیکھ رہے ہوتے ہیں تاہم سرفنگ ان کیلیے ایک مختلف تجربے، کڑے امتحان کے ساتھ ساتھ صحت مندانہ سرگرمی بھی ہے۔

عتیق الرحمان ہاکس بے بلیچی بیچ کے رہائشی اور ماہی گیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں پاکستان میں سرفنگ کے کھیل کو متعارف کروانے والےعتیق الرحمان بتاتے ہیں کہ ماہی گیر فیملی سے تعلق ہونے کے باعث ان کا پانی کے ساتھ گہرا تعلق بن چکا ہے، عتیق کے مطابق بچپن سے ہی واٹر اسپورٹس کی مختلف سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے تاہم سرفنگ کے کھیل کو چند دوستوں کے ساتھ ملکر شروع کیا آج 50 سے زائد سرفرز ہمارے ساتھ جڑ چکے ہیں۔

عتیق الرحمان کہتے ہیں سرفنگ کیلیے سمندر کا موڈ، پانی کا بہاؤ ، لہروں کی بلندی اور درجہ حرارت دیکھ کر مناسب ایریا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

نوجوان سرفرعتیق الرحمان کے مطابق وہ اپنے شوق سے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتےہیں تاہم یہ کھیل دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے، جس میں چوٹ لگنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ عتیق الرحمان کہتے ہیں اگر کسی کو چوٹ آجائے تو ہمارے پاس اس کیلیے فرسٹ ایڈ کٹ تک موجود نہیں ہے۔

عتیق الرحمان نے دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر انھیں اور ان کے ساتھی سرفررز کو سپورٹ حاصل ہو جائے تو وہ نہ صرف اس کھیل کے زریعے پاکستان کی نمائندگی دنیا بھر میں کر سکتے ہیں بلکہ ان کے گروپ میں شامل کچھ ایسے سرفرز بھی ہیں جو عالمی مقابلے جیت کو گولڈ میڈل حاصل کر سکتے ہیں۔
WhatsApp Image 2024-10-30 at 08.47.31.jpeg
اونچی لہروں سے دلیرانہ مقابلے کرنے والے سرفر عتیق الرحمان اور ان کے دوست نئے سرفنگ بورڈز خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے، عتیق الرحمان کے مطابق نئے سرفنگ بورڈ انتہائی مہنگے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے خریدنا ناممکن ہے اس لیے ہم استعمال شدہ بورڈز بازار سے خرید کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

عتیق الرحمان کی خواہش ہے کہ پاکستانی سرفرز بھی اولمپکس کے دوران سرفنگ کے مقابلوں میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ ملک کیلیے میڈلز بھی جیت کر لائیں۔

عتیق الرحمان کہتے ہیں دنیا کے مختلف ممالک میں سرفنگ کےعالمی مقابلے منعقد ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں کھیلوں کے متعلقہ محکموں کو اس کھیل کے بارے میں معلومات تک نہیں، عتیق الرحمان کے مطابق نوجوان اس کھیل کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں اگر انھیں ماہر کوچز کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات فراہم کر دی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے سرفرز عالمی افق پر جگمگائیں گے۔

(ایس بی ایس اردو کیلیے یہ رپورٹ پاکستان سے احسان خان نے پیش کی ہے۔)
________________________________________________________________

کس طرح ایس بی ایس اردو کے مرکزی صفحے کو بُک مارک بنائیں یا
کو اپنا ہوم پیج بنائیں۔


شئیر